ایردوان: مختصر تعارف

رجب طیب ایردوان 26فروری سن 1954ء کو استنبول شہر میں پیدا ہوئے۔لیکن ان کے خاندان کا تعلق ترکی کے شمال مشرق میں بحر اسود کے قریب واقع ریزا نامی شہر سے تھا۔
رجب طیب ایردوان نے ابتدائی تعلیم قاسم پاشا پیالہ پرائمری اسکول سے حاصل کی اور سن 1965ء میں وہاں سے فراغت حاصل کی ۔ اس کے بعد انہوں نے استنبول امام خطیب ہائی سکول میں بڑے ماہرین سے پڑھا ۔اورسن 1973ء میں وہاں سے میٹرک پاس کیا ۔ اسی طرح انہوں نے دیگر اضافی مضامین کا امتحان پاس کرنے کے بعد ایوب ہائی اسکول سے ڈپلومہ کی سند حاصل کی ۔ اس کے بعد انہوں نے مرمرہ یونیورسٹی کے کامرس و اکنامکس کے شعبہ میں داخلہ لیا اور سن 1981عیسوی میں تعلیم مکمل کی۔
رجب طیب ایردوان اپنی ابتدائے جوانی سے مضبوط اجتماعی اور سیاسی زندگی کی جدوجہد اور ہمہ تن مصروفیت کی وجہ سے مشہور تھے۔ اسی طرح انہوں نے سن 1969عیسوی اور سن 1982عیسوی کے درمیانی حصے میں اپنی ٹیم کے ساتھ اجتماعی کام کے تجربے کی روشنی میں سلیقہ عمل اور ڈسپلن سیکھا۔ یہ اُس زمانے کی بات ہے جب اُنہوں نے فٹ بال کو پسندیدہ مشغلہ کے طور پر اپنالیا تھا اور اسی عرصہ میں انہوں نے مُلک کو درپیش اجتماعی مسائل وچیلنجز کے پائیدار حل کے لئے کام کرنا شروع کیا کیونکہ وہ ایک وسیع النظر اور روشن فکر جوان تھے اور انہیں پختہ یقین تھا کہ اپنے ملک و ملت کا بڑا فائدہ اس میں ہے کہ وہ سیاسی زندگی میں قدم رکھیں،چنانچہ وہ بڑے دھوم دھام اور متحرک صورت میں سیاسی زندگی میں داخل ہوئے۔
رجب طیب ایردوان نے تحریکات ِ نوجوانان اور ترکی سٹوڈنٹ تنظیم کی وطنی اتحاد میں واضح کردار ادا کرنا شروع کردیا۔ سن 1976عیسوی میں وہ استنبول کے ایک ضلع بایوغلو کے علاقے سے تنظیمِ نوجوانان کی مُلکی امن پارٹی کے صدر منتخب ہوئے اور اسی سال ہی وہ استنبول شہر کے تنظیمِ نوجوانان کے صدر بن گئے۔ اور سن 1980عیسوی تک وہ ان دو عہدوں کے علاوہ دیگر عہدوں پر بھی فائز رہے۔ اور اسی سال 12 ستمبر کو جب سیاسی پارٹیاں آئیں تو انہوں نے سپیشل سیکٹر میں بحیثیت ِ مشیر وایڈوائزر اور اعلیٰ منتظم کے کام انجام دیا۔
رجب طیب ایردوان سن 1983عیسوی رفاہ پارٹی کی تاسیس کے ساتھ بڑی طاقت کے ہمراہ میدان میں اُترے۔اور سن1984عیسوی میں استنبول کے ضلع بایوغلو کی ایک تحصیل کے صدر بن گئے۔ پھروہ استنبول شہر کے صدر بن گئے۔ اور سن 1985عیسوی میں رفاہ پارٹی کے مرکزی قرارداد کمیٹی کے رکن مقرر ہوئے۔انہوں نے استنبول سٹی سے ملحقہ تحصیل کے دورِ صدارت میں پارٹی کا ایک نیا ڈھانچہ تشکیل دیا۔ اسی طرح یہ تنظیم دیگر سیاسی پارٹیوں کے لئے رول ماڈل کی حیثیت رکھتی تھی۔اسی عرصہ میں طیب ایردوان نے بڑے پیمانے پر کوششیں کیں، خصوصاً جوانوں اور عورتوں کو سیاست کی طرف راغب کیا۔ اس دوران انہوں نے معاشرے میں سیاست کی ترویج اور قومی مفادات کے لئے اہم اقدامات اٹھائیں۔ اور یہی وجہ تھی کہ ان اقدامات کےنتیجے میں نئی تنظیم رفاہ پارٹی نے واضح برتری حاصل کر لی۔ اس پارٹی جس نے سن 1989عیسوی میں ضلع بایوغلو کے لوکل الیکشن میں بڑی کامیابی حاصل کی تھی وہ ملکی سیاست میں قابلِ تقلید سمجھی جانے لگی تھی۔
27 مارچ 1994عیسوی میں ہونے والے لوکل الیکشن میں رجب طیب ایردوان ملک کے سب سے بڑے شہر استنبول کے گورنر منتخب ہوئے۔آپ نے اس شہر جس کا شمار دُنیا کے بڑے شہروں میں ہوتا ہے اس کے مسائل کا زبردست حل نکالا۔ اُنہوں نے اپنے سیاسی تجربے، اجتماعی کام سے لگاؤ ، انسانی ذرائع آمدنی اور مالیات کے انتظامی تجربوں کی بدولت ملک کےاہم ترین شہر کے مسائل حل کر دئیے انہوں نے جس محدود وقت میں مسائل حل کیے وہ ناقابل یقین تھا۔ من جملہ ایک مسئلہ پانی کا تھا جس کے لئے انہوں نے سینکڑوں کلومیٹر کی طویل مسافت پر واٹر پائپ لائنیں بچھائیں۔ دوسرا مسئلہ کوڑاکرکٹ اور کچرے کا تھا،جسے زیرزمین سائنسی طریقے سے دفنانے اور ختم کرنے کے لئے نئے متعلقہ اداروں کا قیام کیا۔ تیسرا مسئلہ دھوئیں اور فضائی آلودگی کو ختم کرنے کے لئے انہوں نے قدرتی گیس کے استعمال کا منصوبہ شروع کیا۔ ایسے ہی انہوں نے شہر میں ٹریفک اور آمدرفت کا معمہ حل کرنے کے لئے پچاس سے زائد پُل، سُرنگیں اور تیز سڑکیں بنائی اور دوسرے ایسے کئی منصوبے شروع کیے جس نے شہر کی ترقی کے لئے نئی راہیں کھول دیں۔
رجب طیب ایردوان نے شہری ذرائع کی سرمایہ کاری کے لئے سوچ سمجھ کے گہری تدابیر اختیار کیں اور کرپشن کے خلاف فیصلہ کیا اور شہری منصب صدارت کے سنبھالتے ہی شہر کے ذمہ ملکی قرضوں کی ادائیگی شروع کی جو دوملین امریکی ڈالر بنتے تھے۔ پھر انہوں نے اتنی بھاری سرمایہ کاری کی، جس کی قیمت چارملین امریکی ڈالرتک پہنچتی تھی۔اسی وجہ سے ایردوان نے بلادِ ترکی کی تاریخ میں نیا زرین باب کھولا۔ بے مثال پرفارمنس کے ساتھ ایک طرف انہوں نے عوام کا بھرپور اعتماد حاصل کیا تو دوسری طرف دیگر شہروں کے گورنروں کے لئے قابلِ تقلید مثال بن گئے۔
12دسمبر1997 عیسوی کو صرف اس وجہ سے ایردوان کو جیل بھجنے کافیصلہ ہوا کہ اس نے سیرت شہر میں ایک جلسہ عام سے خطاب میں ایک شعری مصرعہ پڑھا جس کے الفاظ تھے "گنبد ہماری جنگی ٹوپیاں ہیں، مسجدیں ہماری فوجی چھاؤنیاں ہیں، صالح مسلمان ہمارے سپاہی ہیں، کوئی دنیاوی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی۔۔۔۔”۔ اس کے نتیجے میں انہیں ترکی کے بڑے شہر استنبول کے گورنری سے معزول کردیا گیا ۔اُن کا خیال تھا کہ وہ شعر سرکاری ادارے سے شائع کی گئی کتاب میں ہے۔ جس کی چھان بین کے لیے وزارتِ تعلیم نے باقاعدہ طور پر اساتذہ کو ہدایت کی۔ اسی وجہ سے رجب طیب ایردوان نومبر2002 عیسوی کے انتخابات میں امیدوار نہ بن سکے کیونکہ اس کی اہلیت بارے میں اس مقدمے کی روشنی میں عدالتی حکم آیا تھا۔ اس معاملے میں جب قانونی ترامیم ہوئیں تو ان کی انتخابی رکاوٹیں دور ہوگئیں۔ جس کے بعد انہوں نے 9مارچ 2003ء میں ہونے والے الیکشن میں سیرت شہر سے بطور پارلیمانی امیدوار انتخابات لڑا، سیرت شہر سے پچاسی فیصدووٹ حاصل کیے جس کی بدولت وہ بائیسویں الیکشن میں سیرت شہر سے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔ 15مارچ 2003ء کو جب رجب طیب ایردوان نے منصب وزارت عظمیٰ سنبھالی تو ملک کی اہم اصلاحی اور ترقیاتی کاموں کی انجام دہی شروع کی اور اس میں انقلابی تبدیلیاں کرنے لگے۔ یہ ترکی کے لیے دیرپا ترقی میں کردار ادا کرنے والی مثبت سوچ رکھنے کا نتیجہ تھا۔ انہوں نے کرپشن کے خاتمے اور شفاف نظام لانے اور جمہوری اقدار کو مضبوط بنانے کے لیے کئی اہم اصلاحات نافذ کیں۔ اسی طرح افراطِ زر جو سابقہ حکومتوں کے ایک تھکا دینے والا مسئلہ تھا پر بھی قابو پالیا۔ اور یہ وہ اہم مسئلہ تھا جس کے ہوتے ہوئے معاشی استحکام ناممکن تھا۔ٓ ترکی کرنسی نوٹ سے چھ صفر ختم کرا کے اس کی قدر ومنزلت لوٹا دی۔ ملکی قرضے گھٹ گئے، انفرادی آمدن میں اضافہ ہوا، اس کے علاوہ حسبِ ضرورت جگہ جگہ سکولز، ہاسٹلز، سڑکیں ،ڈیمز اور بجلی کے گرڈاسٹیشن بنائے اور یہ سب کچھ اتنے جلدی میں ہوا کہ ترکی کی تاریخ میں اس کا مثال بتانا مشکل ہے۔ ان مثبت اقدامات کو دیکھ کر بعض تنقید کرنے والے اور مغربی سیاسی رہنماؤں نے اسے ’’خاموش انقلاب‘‘ کا نام دے دیا۔ دوسری طرف یورپی یونین کے ساتھ انضمام کی کامیاب کوششیں بھی آپ ہی کے سر ہیں۔
رجب طیب ایردوان نے مسئلہ جزیرۃ قبرص کے پائیدار اور دائمی حل کے لیے اہم اقدامات اٹھائے۔ انہوں نے بہترین خارجہ پالیسی اور اہم مضبوط غیر ملکی دوروں اور رابطوں کے ذریعے دنیا کے مختلف ممالک کے ساتھ مثبت تعلقات قائم کیے۔ ترکی کی یہ مستحکم صورتحال اندرونی انقلابی تحریک کا سبب بنی، تاکہ ترکی کو دنیا بڑے ممالک صف میں ایسے درجے پر لائیں جس کے بعد ترکی کی سیاسی قوت اور تجارتی حجم میں اضافے کا ادراک نہ صرف یہ کہ قومی سطح پر یقینی ہو بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی محسوس کی جانے لگے۔
رجب طیب ایردوان نے آق پارٹی کے قائد کے طور پر جولائی سن 2007عیسوی کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں بڑی کامیابی حاصل کی اور جمہوریہ ترکی ساٹھویں حکومت بنائی اور ترکی کے رائے عامہ کا اعتماد حاصل کیا۔ 12جون سن 2011عیسوی کے الیکشن میں رجب طیب ایردوان کی پارٹی نے 49.8 فیصد ووٹ لے کر نئی کامیابی حاصل کی اور اکسٹھویں حکومت قائم کرلی۔بروزاتوار 15اگست سن 2014عیسوی کو ترکی قوم نے اپنے ووٹوں سے پہلی بار رجب طیب ایردوان کو جمہوریہ ترکی کا بارہواں صدر منتخب کرلیا۔
انہوں نے ہدف2023 عیسوی کے ساتھ ترکی کو دنیا کی دس بڑی عالمی قوتوں میں شامل کرنے کے لیے کوششیں شروع کردی، ترکی عالمی معاشی اداروں سے آزاد ہو چکا ہے اور تیزی سے ایسی معاشی قوت بن چکا تھا جسے معروف عالمی معاشی بحران بھی نہیں ہلا پایا تھا۔ اس سے زیادہ اہم کہ ترکی اپنی ملکی اور غیر ملکی پالیسیوں کو اپنی مرضی سے مرتب کرنے کی صلاحیت پیدا کرچکا تھا۔ 15جولائی 2016عیسوی میں ریاستی اداروں میں موجود گولن عناصر سے مدد سے ان پر شب خون مارنے کی کوشش کی گئی جو ترک ملت نے اتحاد اور یکجہتی سے ناکام بنا دی۔ انہیں عوام کا مزید اعتماد حاصل ہوا۔
رجب طیب ایردوان شادی شدہ اور چار بچوں کے باپ ہیں۔

%d bloggers like this: