ارطغرل غازی کی مقبولیت منفرد کاروباروں کو جنم دینے لگی
اس سے بھلا کون انکار کرے گا کہ "دریلش ارطغرل” عالمی سطح پر ایک کامیاب سیریز ہے اور دنیا بھر میں اربوں لوگ اسے دیکھ چکے ہیں، اور کشمیر بھی اس کے سحر سے نکل نہیں پایا۔ یہ سیریز سلطنتِ عثمانیہ کے بانی عثمان اوّل کے والد ارطغرل غازی کی زندگی اور ان کے چھوٹے خانہ بدوش ‘قائی قبیلے’ کی جدوجہد کا احاطہ کرتی ہے۔
سلطنتِ عثمانیہ کی ایک گم گشتہ تاریخ سے پردہ اٹھانے والی یہ سیریز ایک بہادر جنگجو کی داستان بیان کرتی ہے، جس میں اس زمانے کی سیاست اور سماجی زندگی بھی بیان کی گئی ہے۔ کشمیری ناظرین میں یہ تاریخی ڈراما بہت مقبول ہوا ہے اور اپنے کرداروں، مواد اور کہانی کی بدولت بہت سراہا گیا ہے۔
اب ارطغرل غازی کشمیریوں کے دل اور ذہنوں میں بستا ہے۔ اس سیریز سے متاثر ہو کر کئی والدین نے اپنے بچوں کے نام ارطغرل رکھے ہیں اور مقبوضہ کشمیر میں کئی کاروبار ارطغرل کے نام سے کھلے ہیں۔ جن میں سے ایک ہر "کاردیش لر – دی کشمیر کیفے”۔ شاداب چاشو کا یہ کیفے سری نگر کے وسط میں واقع ہے اور ارطغرل غازی ڈرامے کی تھیم پر بنایا گیا ہے۔
شاداب کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے یہ ریستوران کھولنے کا فیصلہ کیا تو عوام میں مقبولیت کے لیے نہوں نے "ارطغرل غازی” کی تھیم کا انتخاب کیا۔ "ہم ایسا مقام بنانا چاہتے تھے جو لوگوں میں فوری مقبولیت حاصل کرے اور ارطغرل سیریز پر اپنے ریستوران کو ڈیزائن کرنے سے بہتر بھلا کیا ہوگا۔ یہ آئیڈیا کام کر گیا ہے اور لوگوں کو یہ جگہ بہت پسند آئی۔”
اس ریستوران کا ماحول ایسا ہے کہ آنے والوں کو لگتا ہے کہ وہ سیریز کے کسی منظر میں ہیں۔ ریستوران کی ایک دیوار "ارطغرل غازی” کے مختلف کرداروں سے سجی ہوئی ہے۔ شاداب نے یہ دیوار بڑی عرق ریزی سے بنائی ہے۔ انہوں نے صرف خاص طور پر بنائے گئے پورٹریٹ استعمال کیے ہیں کہ جو خصوصی طور پر ایک باصلاحیت 18 سالہ مصور نے تیار کیے ہیں۔ اس کے علاوہ طورغت الپ کی مشہور تلوار، قائی قبیلے کے پرچم، ترک تلواریں اور ایک تخت بھی موجود ہے۔
شاداب کے مطابق ترک کھانوں کی مقبولیت وادی میں اپنے عروج پر ہے۔ ہم سے مزید ترک کھانے پیش کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
کاردیش لر – دی کشمیر کیفے کی فہرست طعام (مینیو) اس وق ذرا محدود ہے کیونکہ ریستوران کووِڈ-19 کی وبا کے دوران کھلا تھا اور اب بھی کشمیر میں ریستوران میں بیٹھ کر کھانے کھانے پر پابندی موجود ہے۔ شاداب کہتے ہیں کہ "ہم اس وقت چند ہی ترک کھانے پیش کرتے ہیں لیکن ہم مزید پکوان لانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔”
اس مقبول ڈرامے سے ایک اور رجحان نے جنم لیا ہے، گھڑ سواری۔ فضل اللہ رائل اسٹیبلز اینڈ رائیڈنگ اسکول علی عباس کی ملکیت ہے اور وادی میں اپنی نوعیت کا پہلا گھڑ سواری کا ادارہ اور تربیتی اسکول ہے۔ 34 سالہ علی عباس ایک ماہر گھڑ سوار ہیں اور ان کا مقصد اس کھیل میں دلچسپی لینے والے افراد کو تربیت دینا ہے۔ گھڑ سواری کشمیر میں کوئی نیا شوق نہیں ہے بلکہ گلمرگ، سونمرگ، پہلگام اور دیگر معروف سیاحتی مقامات پر کافی مقبول ہے۔ لیکن یہ محض ان مقامات پر سیاحوں تک ہی محدود ہے، دیگر مقامات پر گھڑ سواری اور اس کی پیشہ ورانہ تربیت عام نہیں ہے۔ علی عباس کافی عرصے سے ایسا اسکول کھولنے کے خواہشمند تھے لیکن "ارطغرل غازی” دیکھنے کے بعد ہی خیال کو عملی جامہ پہنا سکے۔
علی عباس بتاتے ہیں کہ اب تک 150 سے زیادہ لوگوں کی درخواستیں مل چکی ہیں۔ عباس اور ان کے ساتھی مقامی افراد اور سیاحوں میں کافی مقبولیت رکھتے ہیں۔ جب وہ شہر کی کسی سڑک سے گزرتے ہیں تو لوگ انہیں قائی قبیلہ کہتے ہیں۔