سیاسی انتشار میں کرشماتی قیادت کا کردار
تحریر: احسان آکتاش
مضبوط سیاسی ڈھانچے اور اعلیٰ سطحی ادارہ سازی کے حامل ممالک جیسے کہ انگلینڈ، فرانس یا جرمنی میں ٹیکنوکریٹک یا غیر کرشماتی رہنما آسانی کے ساتھ حکومت کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ اسی طرح امریکہ کے موجودہ صدر جو بائیڈن کو بڑھاپے کے باوجود حکومت کرنے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی ہے۔
اسی طرح، سرد جنگ کے دوران کسی کرشماتی اور دور اندیش قیادت کی ضرورت نہیں تھی، جب طاقت کے دو قطبی توازن کی وجہ سے پائیدار سیاسی استحکام پیدا ہوا۔ جوہری جنگ کے باہمی طور پر یقینی تباہی کے اصول کی وجہ سے نہ صرف بین الاقوامی نظام متوازن تھا بلکہ سرد جنگ کے دور کا اتحادی نظام بھی سرد جنگ کے بعد کے دور کے مقابلے بہت آسان اور واضح تھا۔
آج بین الاقوامی ترتیب طاقت کے کثیر الجہتی توازن پر مبنی ہے جو کثیر جہتی، مائع خصوصیت کی حامل اور ہنگامہ خیز بین الاقوامی سیاست کو تخلیق کرتا ہے۔ جیسے جیسے روایتی اتحاد ٹوٹتے گئے، مختلف ممالک کو یہ طے کرنے میں مشکل پیش آئی کہ بین الاقوامی میدان میں ان کے دوست اور دشمن کون ہیں۔ جغرافیائی طور پر بین الاقوامی نظاموں کے سنگم پر واقع ترکی کو سرد جنگ کے بعد کے انتشار کے دور میں سیاسی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے کرشماتی اور بصیرت والی قیادت کی ضرورت ہے۔
چند سال قبل انطالیہ میں منعقدہ بین الاقوامی سلامتی سے متعلق ایک سمپوزیم میں، جب میں عالمی دہشت گردی کے ایک سیشن کا منتظم تھا، اس سیشن میں برطانیہ کے ایک معروف ماہرِ سیاسیات نے کرشماتی قیادت کی کمی کو نہ مجموعی طور پر یورپ بلکہ انفرادی طور پر یورپی ممالک کا بھی سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اہم یورپی طاقتوں نے بین الاقوامی میدان میں خراب کارکردگی کا مظاہرہ صرف اس لیے کہا کیونکہ ان کے پاس وژنری قیادت کی کمی تھی۔
سلطنت عثمانیہ کی زوال کے ادوار میں "قحط الرجال” کی اصطلاح، جس کا مطلب ہنر مند قائدین کی کمی ہے، سلطنت کے مسلسل زوال کی اہم وجہ قرار دیتے ہوئے بیوروکریسی میں مقبول ہو گئی تھی۔
ترکی اگر حال ہی میں بین الاقوامی نظام میں ایک علاقائی طاقت کے طور پر ابھرا ہے تو اس کی وجہ صرف یہ نہیں کہ وہ دنیا کی 17ویں بڑی معیشت ہے بلکہ اس کی مضبوط سیاسی قیادت بھی ہے۔ صدر رجب طیب ایردوان کو بین الاقوامی سیاست میں چند بصیرت رکھنے والے سیاسی رہنماؤں میں سے ایک کے طور پر جانا جاتا ہے۔
اس کی چند مثالیں دی جائیں تو؛ جب امریکا نے افغانستان سے انخلاء کا فیصلہ کیا تو نیٹو نے سنگین صورتحال پر قابو پانے کے لیے صدر ایردوان کی مدد طلب کی۔ نیدرلینڈز میں عام انتخابات کے دوران، نسل پرست سیاسی جماعت نے اپنی انتخابی مہم کی بنیاد صدر ایردوان کے خلاف مخالفانہ سیاسی گفتگو پر رکھی۔ فرانس میں صدر ایمانوئل میکرون نے بھی فرانسیسی قوم پرستوں میں اپنی مقبولیت بڑھانے کے لیے اسی طرح صدر ایردوان کو نشانہ بنایا۔ دوسری طرف، کئی افریقی ممالک میں، جب فرانس کے خلاف استعمار مخالف جذبات ابھرتے ہیں، تو دیکھا گیا ہے مظاہرین صدر ایردوان کے نام کا نعرہ لگاتے ہیں۔
صدر ایردوان کی مضبوط سیاسی قیادت کی بدولت ترکی لیبیا، مشرقی بحیرہ روم، شام اور آذربائیجان میں ایک پلے میکر کے طور پر ابھرا ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن اور صدر ایردوان کے درمیان قریبی تعلقات دونوں ممالک کو مستحکم اور تعمیری تعاون کے قابل بناتے ہیں، جو تعاون صرف باہمی معاہدوں پر ہی مشتمل نہیں ہے بلکہ شام یا یوکرائنی بحرانوں میں بھی باہمی اختلافات پر مشتمل ہے۔
حال ہی میں ترکی کو شرح سود میں کمی اور ایکچینج ریٹ اور قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے مالی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ کم شرح سود کے ساتھ قومی پیداوار کی حمایت میں اپنی پوزیشن برقرار رکھتے ہوئے صدر ایردوان نے ایک غیر متوقع قدم اٹھایا۔ ایردوان کی جانب سے حکومت کے نئے مالیاتی اقدامات کے اعلان کے بعد، ترکش لیرا، امریکی ڈالر کے مقابلے میں راتوں رات مضبوط ہوا۔ اس سے یہ پہلو بھی ترکی کی سیاست میں دیکھا گیا کہ اپوزیشن جماعتوں کو سیاسی اور اقتصادی بحرانوں سے اپنا سیاسی مقام بنانے کی بجائے ٹھوس پالیسیاں اور ڈسکورس تیار کرنا ہوں گے۔
قصہ مختصر، قومی اور بین الاقوامی بحرانوں اور ایشوز میں تخلیقاتی بیانیے اور قراردادوں کے ساتھ نبٹنے کی صلاحیت، صدر ایردوان کی پُرعزم اور نڈر قیادت کی سب سے مضبوط خصوصیت سمجھی جاتی ہے۔ جیسا کہ طوفانوں سے نمٹنے کے لیے بحری جہازوں کو تجربہ کار کپتانوں کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح صدر ایردوان نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ وہ اس طوفانی موسم میں ترکی کو کامیابی سے آگے بڑھانے والے کامیاب کپتان ہیں۔