سلطان احمد سنجر اور علامہ محمد اقبالؒ
شوکتِ سنجر و سلیم، تیرے جلال کی نمود!
فقرِ جنید و بایزید ، تیرا جمال بے نقاب
عجب نہیں کہ مسلماں کو پھر عطا کر دیں
شکوہ سنجر و فقر جنید و بسطامی
ڈاکٹر محمد اقبالؒ کے یہ اشعار انکی کتاب بالِ جبریل کی خوبصورت نظموں میں سے ہے۔
اس نظم کے اکثر شعر فلسطین میں کہے گہے تھے، جہاں ڈاکٹر محمد اقبال دسمبر 1931ء کو عالمی مسلم کانگرس میں شرکت کے لئے گئے تھے۔
نظم کے ابتدائی بند میں قصیدہ بردہ کے پہلے دو شعروں کی تلمیحات موجود ہیں ، اس سے خیال ہوتا ہے کہ یہ نظم دراصل حضرتِ محمدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں لکھی گئی ہے۔
اقبال نے کہا؛
دیا ہے میں نے انھیں ذوق آتش آشامی
حرم کے پاس کوئی اعجمی ہے زمزمہ سنج
کہ تار تار ہوئے جامہ ہائے احرامی
حقیقت ابدی ہے مقام شبیری
شوکتِ سنجر و سلیم، تیرے جلال کی نمود!
فقرِ جنید و بایزید ، تیرا جمال بے نقاب
شوق تیرا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب! میرا سجود بھی حجاب!
سنجر اور سلیم جیسے سلطانوں کی شان و شوکت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جلال کا ایک کرشمہ تھی۔ حضرت جنیدِ بغدادی اور بایزید بسطامی رحمۃ اللّٰہ علیہما جیسے سچے بندگانِ مومن درویشوں کا وجود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جمالی شان و عظمت کی جھلک پیش کرتا ہے۔
یعنی انہیں دیکھ کر فوراً یقین ہوجاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمالی شان آشکار ہوگئی۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق میری نماز کا امام نہ ہو، یعنی اسے خدائے پاک کی بارگاہ میں عبادت کا نصب العین نہ بناؤں تو نماز کے لئے میرا کھڑا ہونا بھی جلوہِ ذات سے محرومی کا باعث ہوا، اور میرے سجدے کی بھی کیفیت یہی ہے۔
مطلب یہ کہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی درحقیقت عبادت میں وہ شان پیدا کرتا ہے جو انسان کو منزلِ مقصود تک پہنچاتی ہے۔
سنجر بن ملیکشاہ بن الپ ارسلان بن داؤد بن میکائیل بن سلجوق، تاریخ کے معززین اسلام میں شمار کیے جانے والے ترک سلطان تھے جن کی سلطنت خراسان، غزنی اور دریا کے پار عراق، آزربائجان، آرمینیا، آران، شام، موصل، دیاربکر، رابعا، حرمین اور گرد و نواح تک پھیلی ہوئی تھی۔ ان کی والدہ ایک لونڈی تھی اور اس کا نام تاج الدین خاتون الصفریہ تھا، جو سلطان ملک شاہ بن الپ ارسلان کی غلام تھی۔
سلطان سنجر کو عالم اسلام میں بہت بلند مرتبہ حاصل ہوا اسے ’’سلطان اعظم‘‘ کا لقب دیا گیا اس کی شان و شوکت اور عظمت و سطوت ضرب المثل تھی۔
تاریخ دان ابن خلقان نے سنجر کے بارے لکھا ہے کہ وہ انتہائی طاقت ور بادشاہ تھا اور سلجوقیوں میں سب سے زیادہ نرم مزاج۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ ہر طبقہ کے ساتھ سخاوت کا مظاہرہ کرتا تھا۔ امام ابو حمید الغزالی نے البتہ سنجر پر کڑی تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ اس کے دور میں مسلمانوں کو ٹیکسوں سے لاد دیا گیا اور اس کی فوج کے گھوڑوں کی گردنیں زخمی ہو گئیں کیونکہ انہیں آرام کا موقع نہیں دیا جاتا تھا۔
الذہبی نے لکھا کہ وہ ایک باوقار، زندہ دل، سخی اور شفقت والا سلطان تھا۔ ڈاکٹر یحییٰ الوثنا نے ان کے بارے لکھا ہے کہ اس نے اپنے باپ ملیکشاہ کی پالیسیوں کو آگے بڑھایا کیونکہ اس کے زمانے میں سلجوقی سرمزمین اور اسلامی دنیا کی توسیع دیکھنے میں آ رہی تھی۔
ترکی نے اس حوالے سے ارطغرل غازی طرز کی ایک ویب سیریز پر کام کر رہا ہے جس کا نام Uyanış: Büyük Selçuklu اور اردو معنیٰ بیداری: عظیم سلجوقی سلطنت ہے، اس ڈرامے میں سنجر کا کردار ترک اداکار Ekin Koç ادا کر رہے ہیں۔ اس سیریل ڈرامہ کی 21 اقساط ریلیز ہو چکی ہیں جو اردو اور انگلش سب ٹائٹل میں موجود ہیں۔