حق کے بجائے طاقتور کا تحفظ کرنے والا موجودہ عالمی نظام مزید نہیں چل سکتا، صدر ایردوان
12 ویں سفارت کار کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر رجب طیب ایردوان نے کہا کہ "حق کے بجائے طاقتور کا، اکثریت کے بجائے اقلیت کا اور غریب کے بجائے امیر کا تحفظ کرنے والا موجودہ عالمی نظام اس حالت میں نہیں چل سکتا۔”
صدر رجب طیب ایردوان نے ایوانِ صدر میں 12 ویں سفارت کار کانفرنس سے خطاب کیا۔
"ہم نے 155 ممالک اور 9 بین الاقوامی اداروں کو طبّی امداد فراہم کی”
عالمی وباء نے ظاہر کر دیا کہ معاشی طور پر مضبوط ممالک طبّی بنیادی ڈھانچے اور معاشرتی تحفظ کے لحاظ سے کتنے کمزور ہیں، تاہم ترکی نے کووِڈ-19 کی وباء کے خلاف بہترین کارکردگی دکھائی، اس حوالے سے صدر نے کہا کہ "اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے کہ دوست وہ ہے، جو مصیبت میں کام آئے، ہم نے مدد طلب کرنے والے 155 ممالک اور 9 بین الاقوامی اداروں کو طبّی امداد فراہم کی۔ ہم نے یہ مدد سفارتی اقدام کی حیثیت سے نہیں، بلکہ اپنے عقائد، ثقافت اور انسانی خارجہ پالیسی کے مطابق کی۔”
"جب تک نئے عہد کے تقاضوں کے مطابق اپنے رویّوں پر نظرثانی نہیں کریں گے، تب تک بین الاقوامی اداروں کی ساکھ ختم ہونے سے نہیں روک سکتے”
وباء کے دوران عالمی اداروں کا جمود مزید نمایاں ہوا، یہ کہتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا کہ "جب تک نئے عہد کے تقاضوں کے مطابق اپنے رویّوں، اداروں اور قواعد پر نظرثانی نہیں کریں گے، تب تک بین الاقوامی اداروں کی ساکھ ختم ہونے سے نہیں روک سکتے۔ حق کے بجائے طاقتور کا، اکثریت کے بجائے اقلیت کا اور غریب کے بجائے امیر کا تحفظ کرنے والا موجودہ عالمی نظام اس حالت میں نہیں چل سکتا۔”
صدر ترکی نے کہا کہ ترکی OIC، D-8، ترکش کونسل اور BSEC جیسے جن بین الاقوامی اداروں کا رکن ہے، ان کی مؤثریت کو بہتر بنانے کی کوشش کرے گا۔ ہم ترکی کو نئے عہد کے بنیادی فیصلہ ساز ممالک میں شامل کرنے کے لیے بخوبی کام کر رہے ہیں۔ اپنے اصولوں اور قدیم روایات پر کوئی سودے بازی کیے بغیر ہم اپنے قومی مفادات کا دفاع کر رہے ہیں۔ ہم نے ایک ایسے موقع پر اپنے معاملات خود اپنے ہاتھ میں لیے جب دہشت گرد تنظیموں کے لیے طویل المیعاد اتحادی تعلقات قربان کیے جا رہے ہیں، جمہوریت کے اصول بھینٹ چڑھائے جا رہے ہیں اور ہر کوئی ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے۔”
شام اور عراق میں دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جدوجہد اور لیبیا میں قانونی حکومت کی حمایت اور مشرقی بحیرۂ روم میں اپنے حقوق و مفادات کے تحفظ کے لیے ترکی کی جدوجہد کا حوالہ دیتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا کہ "ہمیں امید ہے کہ یورپی یونین جلد ہی اپنے تزویراتی اندھے پن سے نکل آئے گی جو اسے ترکی کو یورپی یونین میں داخل کرنے سے روکتا ہے۔ اب یہ بالکل واضح ہو چکا ہے کہ بلیک میل کرنے اور دھونس دھمکی کی زبان کام نہیں کرتی۔ کانفرنس، جس میں ترک قبرص سمیت مشرقی بحیرۂ روم کی تمام ساحلی ریاستوں نے شرکت کرنی ہے، مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے کی ہماری خواہش ظاہر کرتی ہے۔ بحیرۂ اسود میں دریافت ہونے والے 405 ارب مکعب میٹر قدرتی گیس کے ذخائر نے ہمارے خود پر یقین کو مضبوط کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جلد ہی ہمیں مشرقی بحیرۂ روم میں جاری تحقیقی سرگرمیوں کے حوالے سے بھی اچھی خبر ملے گی۔”
"اسلاموفوبیا کو صدارتی سطح پر فروغ دیا جارہا ہے”
صدر نے زور دیا کہ ترکی کو مضبوط تر ہونے کی ضرورت ہے، محض اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے ہی نہیں بلکہ اپنے دوستوں اور بھائیوں اور بہنوں کے حقوق کو محفوظ بنانے کے لیے بھی۔ آرمینیا کے قبضے کے خلاف اپنی سرزمین کے تحفظ کی جنگ لڑنے والے آذربائیجان کے لیے ترکی کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا کہ آرمینیا کے مظالم کو 28 سال گزر جانے کے باوجود منسک گروپ اس مسئلے کو حل نہیں کر پایا، انہوں نے کہا کہ شوشا کی آزادی کے ساتھ ترکی کی خوشی اور امیدیں بڑھ گئی ہیں، اور یہ جدوجہد نگورنو-قاراباخ کے قبضے کے خاتمے تک جاری رہے گی۔
دنیا کے مختلف ممالک، بالخصوص یورپ، میں ترکوں اور مسلمانوں پر حملوں کے موضوع پر بات کرتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا کہ "تقریباً ہر روز ہمیں ترکوں اور مسلمانوں کو مساجد، اسکولوں اور کام کی جگہوں پر ہراساں کرنے کی خبریں ملتی رہتی ہیں۔ اسلاموفوبیا کو صدارتی سطح پر فروغ دیا جا رہا ہے، اس کی پشت پناہی کی جا رہی ہے اور آزادئ اظہار کے نام پر مسلمانوں کی مقدس اقدار پر گھٹیا حملے کیے جا رہے ہیں۔ اسلاموفوبیا کے خلاف جدوجہد اپنے عقائد کے لیے بھی ضروری ہے اور بیرونِ ملک مقیم اپنے شہریوں کے حوالے سے بھی ہماری ذمہ داری ہے۔”
"ترکی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ اصولی مؤقف رکھنے والے ملکوں میں سے ایک ہے”
ترکی واحد ملک ہے جو داعش کے خلاف دوبدو لڑا، یہ کہتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا کہ جن غیر ملکی دہشت گردوں کو ترکی نے جلا وطن کیا، ان کا مغربی ممالک میں آزادانہ سرگرمیاں کرنا ناقابلِ فہم ہے۔
صدر ایردوان نے کہا کہ جنہوں نے PKK کے ہاتھوں ہمارے سینکڑوں اساتذہ کے قتل پر غم کا معمولی اظہار تک نہ کیا یا اپنے محلات میں YPG کے سرغنہ کا سرخ قالین بچھا کر استقبال کیا، وہ ہمارے رویّے پر سوال اٹھائیں تو اس سوال کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ترکی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ اصولی مؤقف رکھنے والے اور پُر عزم ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ ہم ان الزامات کا جواب ایسے اقدامات کے ذریعے دیتے رہیں گے، جو عالمی امن و استحکام میں اپنا کردار ادا کریں گے۔”
"ہم نے اس سال 7 بین الاقوامی اداروں کی صدارت سنبھالی ہے”
بین الاقوامی اداروں میں ترکی کے متحرک کردار پر صدر ایردوان نے کہا کہ "ہم نے اقوامِ متحدہ، OSCE اور OIC کے اندر اپنے ثالثی برائے امن منصوبے کا رُخ کیا ہے۔ ہمارا اتحاد برائے تہذیب منصوبہ اقوامِ متحدہ کا منصوبہ بن چکا ہے۔ ہمارے بھائی سفیر وولکان بوزکیر رکن ممالک کی اکثریت کی حمایت سے اقوام متحدہ کی 75 ویں جنرل اسمبلی کے صدر بن چکے ہیں جو ترکی اور ترک سفارت کاری پر اعتماد کو ظاہر کرتا ہے۔ ہمارے سفارت کاروں نے نہ صرف اقوام متحدہ بلکہ نیٹو، OSCE، یونیسکو اور OIC میں اعلیٰ ترین عہدے حاصل کیے ہیں۔ الحمد للہ، ہم نے محض اس سال میں ہی سات بین الاقوامی اداروں میں صدارت سنبھالی ہے۔”