بین الاقوامی انجمنوں کی فوری و جامع اصلاح کی ضرورت اب پہلے سے کہیں زیادہ ہے، ایردوان

0 1,011

انقرہ میں ایک افطار کے موقع پر سفیروں اور سفارتی مشن کے اراکین سے خطاب کرتے ہوئے صدر رجب طیب ایردوان نے کہا کہ "بین الاقوامی انجمنیں، بالخصوص اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، انسانیت کو درپیش مسائل کے مؤثر حل پیش کرنے کی اہلیت نہ ہونے کی وجہ سے اپنی ساکھ کھو چکی ہیں۔ اب بین الاقوامی انجمنوں کی فوری اور جامع اصلاح کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت اختیار کر چکی ہے۔”

اس امر پر زور دیتے ہوئے کہ ترکی ایسا ملک ہے جو دہشت گردی سے انتہائی متاثر ہوا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں وسیع تجربہ حاصل کر چکا ہے، صدر ایردوان نے دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف جنگ میں ترکی کی دنیا کو متحرک کرنے کی جامع کوششوں کی جانب اشارہ کیا اور اقوام متحدہ اور دیگر عالمی انجمنوں سے مطالبہ کیا کہ 15 مارچ کو "اسلاموفوبیا کے خلاف یکجہتی کا عالمی دن” قرار دیا جائے۔

"دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بدستور دہرے معیارات”

دہشت گردی اور ابھرتی ہوئی شدت پسند تنظیموں کے خلاف جنگ میں روا رکھے جانے والے دہرے معیارات کی جانب توجہ دلاتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا کہ "دہشت گرد تنظیمیں PKK اور YPG کو برداشت کیا جا رہا ہے اور انہیں یورپ بھر سے ہر قسم کی پشت پناہی مل رہی ہے۔ مزید یہ کہ فتح اللہ ٹیررسٹ آرگنائزیشن (FETO) کے رہنما اور اراکین امریکا میں اپنی حویلیوں میں عیاشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔”

دنیا کے مختلف خطوں میں علاقائی و انسانی بحرانوں کی تعداد اور شدت دونوں میں اضافے پر توجہ دلاتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا کہ یمن، لیبیا، افغانستان، صومالیہ اور میانمار میں سانحات کی شدت کم نہیں کی جا سکی اور ترکی ان ممالک میں سے ایک ہے جوغیر قانونی ترکِ وطن، انسانی اسمگلنگ اور بین الاقوامی جرائم جیسے خطرات سے براہ راست متاثر ہو رہا ہے۔

"ہم اپنی سرحدوں کے ساتھ پھیلے شامی علاقوں سے دہشت گردوں کو ختم کریں گے”

"شام میں خانہ جنگی اپنے آٹھویں سال میں داخل ہو چکی ہے،” صدر ایردوان نے کہا "ترکی نہ صرف جنیوا عمل اور آستانہ میکانزم میں حصہ ڈالتا ہے، بلکہ شامی بحران کے خاتمے کے لیے میدانِ عمل میں کارروائی بھی کرتا ہے۔ ترکی کے آپریشنز فرات شیلڈ اور شاخِ زیتون نے 4,000 مربع کلومیٹر کا علاقہ دہشت گردوں سےچھڑوایا اور مقامی آبادیوں کو مظالم سے آزاد کیا۔” انہوں نے مزید کہا کہ 3,20,000 افراد ان محفوظ علاقوں میں واپس جانے کے قابل ہوئے جو آپریشنز کے بعد قائم کیے گئے۔

صدر ایردوان نے کہا کہ "ہم جلد ہی اپنی سرحد کے ساتھ شام کے دیگر علاقوں کو بھی دہشت گردوں سے پاک کردیں گے اور اس وقت ملک میں رہنے والے تقریباً 40 لاکھ مہاجرین کے لیے اپنے گھروں کو پرامن انداز میں واپسی ممکن بنائیں گے۔”

"ہم مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کی بیخ کنی کرنے والی تمام کوششوں کے خلاف ہیں”

گزشتہ دو سال میں القدس کے حوالے سے بین الاقوامی قوانین اور محترم اقدار کے خلاف اٹھائے جانے والے اقدامات پر توجہ ڈالتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا کہ غزہ پر رمضان کے مقدس مہینے میں معصوم لوگوں کو ہدف بنانے کے لیے بلاامتیاز حملے کیے جا رہے ہیں۔ "اسرائیلی انتظامیہ میڈیا اداروں پر حملوں سے بھی نہیں چوک رہی، جن میں ہمارا ادارہ بھی شامل ہے، تاکہ غزہ میں کیے جانے والے قتل عام کے بارے میں خبریں نہ بھیجی جا سکیں۔ اس کے باوجود وہ ممالک اور ادارے جو بظاہر آزادئ صحافت کے محافظ بنتے ہیں، ان حملوں پر خاموش ہیں۔” صدر ایردوان نے زور دیا کہ "ہم مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کی بیخ کنی کرنے والی تمام کوششوں کے خلاف ہیں۔”

"مشرقی بحیرۂ روم میں استحکام ترکی اور ترک جمہوریہ شمالی قبرص کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کے ذریعے ہی ممکن ہے”

صدر ایردوان نے مشرقی بحیرۂ روم میں امن و سلامتی کے لیے کوششوں کی جانب توجہ کرتے ہوئے زور دیا کہ مشرقی بحیرۂ روم میں استحکام ترکی اور ترک جمہوریہ شمالی قبرص کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کے ذریعے ہی ممکن ہے اور بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ "میرا ماننا ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز پہلے ہی دیکھ چکے ہوں گے کہ ہم خطے میں کی جانے والی ناگزیر کوششوں سے آنکھیں نہیں پھیریں گے۔ اپنے دیگر تمام مسائل کے ساتھ ساتھ ہم اس مسئلے کو بھی باہمی گفتگو اور تعاون کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں۔”

صدر ایردوان نے زور دیا کہ "بین الاقوامی انجمنیں، بالخصوص اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، انسانیت کو درپیش مسائل کے مؤثر حل پیش کرنے کی اہلیت نہ ہونے کی وجہ سے اپنی ساکھ کھو چکی ہیں۔ اب بین الاقوامی انجمنوں کی فوری اور جامع اصلاح کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت اختیار کر چکی ہے۔”

"ہم 60 سے زیادہ سالوں سے نیٹو اتحاد میں بڑا حصہ ڈال رہے ہیں”

جس کی لاٹھی اس کی بھینس نہیں بلکہ جس کی بھینس اس کی لاٹھی کے ترک طرزِ عمل کا اعادہ کرتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا کہ "ہم نیٹو کے رکن ہیں۔ اس لیےہمارے لیے یہ قبول کرنا ناممکن ہے کہ دیگر نیٹو اراکین ہمارے خلاف کوئی غلط کام کریں۔ اس لیے کہ آپ ایک نیٹو رکن ہوں؛ نیٹو میں ایک تزویراتی شراکت دار بھی، پھر بھی وہ آپ کے خلاف پابندیاں لگانے کی بات کریں، یہ ناقابلِ فہم بات ہے۔ کوئی شراکت داری ایسی نہیں ہو سکتی۔ ہم 60 سے زیادہ سالوں سے نیٹو اتحاد میں بڑا حصہ ڈال رہے ہیں۔ ادائیگی کے معاملے میں ہم امریکا کے بعد دوسرے بلکہ بدترین حالات میں بھی تیسرے نمبر پر رہے۔ ہم اس معاملےمیں بہت احتیاط کرتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر ہماری فوج اور دستے نیٹو کی جانب سے ملک پر عائد ہونے والی تمام ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دیتے ہیں۔”

تبصرے
Loading...
%d bloggers like this: