صدر ایردوان کی آق پارٹی کا مستقبل کیا؟
ترکی کی حکمران جماعت آق پارٹی نے گذشتہ روز سوموار کو اپنی 21 ویں سالگرہ منائی۔ اپنے قیام کے 14 ماہ کے اندر ملک کی سب سے طاقتور پارٹی بننے اور مسلسل 20 سال اقتدار میں رہنے والی یہ پارٹی ترکی کی اس طرح کی واحد پارٹی ہے جو طاقت اور تسلسل کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ بلاشبہ، آق پارٹی کے ہر انتخابات میں حاصل ہونے والی کامیابی کے پیچھے صدر رجب طیب ایردوان کی سیاسی پرفارمنس، قائدانہ صلاحیت اور ان کو حاصل ہونے والی بھرپور عوامی حمایت اہم محرک کے طور پر ہمیشہ موجود رہی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ آق پارٹی میں صدر ایردوان اور ان کے ساتھیوں نے دراصل ترکی کی رائٹ کی پاپولر مگر پابندی کا شکار بننے والی ڈیموکریٹک پارٹی (ڈی پی)، نیشنل آؤٹ لک پارٹی اور مادر لینڈ پارٹی (اے این اے پی) کی میراث کو ملایا، تاہم اس کی قسمت ان تمام تحریکوں سے خاصی مختلف رہی ہے۔ یہ ایسی صورتحال میں اقتدار میں آئی جب فوجی بغاوت کرنے والے تن تنہا اہم اور غیر معمولی فیصلے کرنے میں شرم محسوس نہیں کرتے تھے۔ ایسے میں صدر ایردوان نے ثابت کیا کہ سیاست دانوں کے پاس میں وہ کچھ ہے جس سے ترکی کی قسمت کو بدلا جا سکتا ہے۔ اس لیے ترکی کی سیاسی زندگی پر اس پارٹی کا غیر معمولی اثر ہے۔
آق پارٹی اور صدر ایردوان کے طویل اور نتیجہ خیز دور حکومت کو اندرون اور بیرون ملک کہیں سراہا اور کہیں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے تاہم یہ سب تو سیاست کا حصہ ہے۔ ایک سیاسی تحریک اور اس کے لیڈر کے بارے بہت سے باتیں کہی جاتی ہیں جس کو ترکی کے تقریباً 70 فیصد کسی نہ کسی موقع پر ووٹ دے چکے ہیں۔
آپ کے لیے حیران کن ہو گا کہ اگلے سال انتخابات ہیں اور آج بھی معاشی چیلنجوں اور دو دہائیوں کے کٹھن دور اقتدار کے باوجود آق پارٹی اس وقت ترکی کی سب سے پاپولر سیاسی جماعت بنی ہوئی ہے۔ اپوزیشن کو اس کی شہرت کو توڑا خاصا مشکل ہو رہا ہے۔ درحقیقت، اس پارٹی اور اس کے لیڈر کی نمایاں خصوصیات، سیاسی حرکیات، اعلی کارگردگی، خود کو حالات کے مطابق تبدیلی سے گزارنا اور نئی سیاسی فکر کو ایجاد کرنا ہیں جو 20 سال بعد بھی اسے مشکل حالات میں بھی باقی پارٹیوں کے مقابلے میں اول درجے پر رکھے ہوئے ہیں۔
آق پارٹی کی مقبولیت کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ ترکی کے مخصوص اکثریتی طبقے کو شناخت مہیا کرتی ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ تجزیہ نگار یہ بات سمجھنے میں ہمیشہ ناکام رہے ہیں کہ وہ اسے ایک اسلامی لبرل شناخت دینے والی پارٹی سمجھتے رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کی اصل طاقت کہیں اور ہے۔
آق پارٹی نے اپنے منشور میں خود کو قدامت پسند جمہوری جماعت کے طور بیان کیا ہے کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ وہ جدید دنیا اور قومی اقدار کو ہم آہنگ کر سکتی ہے۔اس میں اپنے منشور میں "ہماری تہذیب” اور "حقیقی قومیت” کے نظریات کا سہارا لیا جس سے ترکی اکثریت کو متوجہ کیا جن کی تہذیبی نمائندگی کرنے کی وہ صلاحیت رکھتی تھی۔ اس نے اس نظریات کو عصری چیلنجز کے ساتھ ہم آہنگ کیا۔ آق پارٹی کے سیاستدانوں کے مطابق اس سے وہ اپنے سیاسی مشن کو عوامی تحریک میں ڈھال دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ مشکلات کے باوجود ترک قوم صدر ایردوان کا ساتھ چھوڑنے کو تیار نظر نہیں آتی۔
آق پارٹی اور اس کی قیادت کی سیاسی حرکیات کو برقرار رکھنے والے دیگر عوامل میں مختلف سماجی گروہوں کے مطالبات کو حل کرنے کی صلاحیت، اصلاحات اور جدوجہد کا متزاج اور بین الاقوامی نظام میں ہونے والی پیش رفت میں ایک طاقتور ترکیچ جواب دینے کی پالیسی عملی طور پر اسے کامیاب بنائے ہوئے ہے۔
تاہم، سب سے اہم معاملہ صدر ایردوان کی خارجہ پالیسی اور ملکی سیاست کے درمیان ایک باہمی پل بنانے کی صلاحیت ہے۔ انہوں نے 2013ء میں اور 2016ء کے بعد سے عرب بغاوتوں کے دوران اور مغربی حکومتوں کے ساتھ تناؤ کے دوران یورپی یونین کی اصلاحات پر عمل درآمد کرتے ہوئے اس ہنر کو مہارت سے استعمال کیا۔ کسی بھی دوسرے رہنماء کے مقابلے میں، جیسا کہ یوکرائن کی جنگ کا چھٹا مہینہ اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ صدرایردوان کامیابی کے ساتھ انتخابی ووٹ بنک میں اضافہ اور معمول پر لانے کی پالیسیوں کو اپنائے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی قوم کو یہ سمجھانے کی اہلیت رکھتے ہیں کہ وہ یورپی یونین کے ساتھ انضمام، مشرقی بحیرہ روم میں تناؤ اور روس کے ساتھ اپنے اپنے اڈے کے ساتھ میل جول کیوں اور کیسے رکھے ہوئے ہیں۔
اگلے سال کے انتخابات آق پارٹی کے لیے ایک نئے چیلنج ثابت ہوں گے۔ تحریک کو اپنے ہی ووٹروں کے سامنے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا حساب کتاب کرنے کا راستہ تلاش کرنا چاہیے، جن سے اسے نئی توثیق کی ضرورت ہے۔ یہ واضح طور پر آق پارٹی کے لیے ایک موقع ہو گا کیونکہ اپوزیشن خود کو مسائل کے حل کے لیے ایک قابل عمل متبادل کے طور پر پیش نہیں کر سکتی۔ لیکن ووٹر کی توجہ حاصل کرنے کے لیے اپوزیشن کی کمزوریاں کافی نہیں ہوں گی۔
آق پارٹی کو خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے شعبوں میں اپنی کامیابیوں کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ ان کے ساتھ داخلی محاذ پر مزید جامع پالیسیاں تیار کی جا سکیں اور یہ بھی کہ پارٹی قیادت کی تمام کیڈر خود کو نئے سرے سے ایجاد کرتی رہے۔ اسے خود کو کردوں، سینٹر رائٹ ووٹرز، مایوس کن قدامت پسندوں اور نوجوانوں کو اپ ڈیٹ کرنے اور اپنے ارادوں سے مکمل آگاہ کرنے کے لیے پرعزم ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ بیک وقت، تحریک کو مصارف زندگی اور آمدنی میں عدم مساوات سے نمٹنے کے لیے مائیکرو پالیسیاں تیار کرنے کی ضرورت ہے۔وقت کم ہے اور کام بہت زیادہ ہے۔
از قلم: برہان الدین دران