ترکی کا مشرق وسطیٰ میں بڑھتا ہوا کردار اور طاقت کا توازن
برہان الدین دران
جب دنیا بھر کی حکومتیں روس یوکرائن بحران پر توجہ مرکوز کئے ہوئے تھی، اپنی خارجہ پالیسی پر ترکی خطے میں ایک اہم قدم اٹھا رہا تھا۔ ترک صدر رجب طیب ایردوان نے متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا جہاں ان کا پُرجوش استقبال کیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق 9-10 مارچ کو اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ بھی ترکی کا دورہ کر رہے ہیں۔ ترک صدر ایردوان نے متحدہ عرب امارات سے واپسی پر ابو دابی میں میڈیا کو یہ بھی بتایا کہ سعودی عرب کے ساتھ بھی "مثبت مذاکرات” چل رہے ہیں۔
اسی تناظر میں، اگلے ماہ انطالیہ ڈپلومیسی فورم نارملائزیشن پالیسی کی خوبیوں کی ایک جھلک دکھائے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے ساتھ معمول پر آنا ترکی کے خلاف خطے میں جاری ناکہ بندی کو توڑنے کے مترادف ہے۔دوسری طرف یہ اقدامات اٹھا کر، ترکی نے یونان، یونانی قبرص، مصر، اسرائیل اور خلیج کی جانب سے مشرقی بحیرہ روم میں ترکوں کو گھیرنے کی کوشش کو ناکام بنا دیا ہے۔ تاہم، زیادہ اہم حقیقت یہ ہے کہ ترکی اس نارملائزیشن پالیسی سے خلیج میں طاقت کے توازن کو اپنی طرف جھکانے کامیاب ہو رہا ہے۔
یہاں یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل ترکی کے ساتھ اپنے تعلقات کی بحالی میں اس قدر پُرجوش کیوں ہیں جس کا ایک مظاہرہ ہمیں صدر ایردوان کے دورہ پر نظر آیا۔ دراصل امریکی صدر جوبائیڈن کی انتخابی فتح اور پھر امریکہ کے افغانستان سے انخلا کے بعد فوری طور پر مشرق وسطیٰ میں تین نارملائزیشن عمل شروع ہوئے۔ سعودی عرب فوری طور پر ایران کے ساتھ تناؤ میں کمی لانے کیلئے آگے بڑھا۔ پھر اسرائیل اور عرب ریاستیں تعلقات کی جانب بڑھتی نظر آئیں۔ اور اس کے بعد اب ترکی نے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات بحال کرنے جا رہا ہے۔
دریں اثنا، خود صدر ایردوان نے خلیج پر ترکی کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو بہترین انداز میں بیان کیا: "ہم خلیجی خطے میں کسی بھی برادر ملک کی سلامتی اور استحکام کو اپنی سلامتی اور استحکام سے الگ نہیں سمجھتے۔” ابوظہبی کا دورہ کرتے ہوئے، ترک صدر نے نہ صرف متحدہ عرب امارات کے ساتھ انقرہ کے تعلقات کو بحال کرنے کی کوشش کی بلکہ امارات کی سلامتی کو ترکی کی اپنی قومی سلامتی کا حصہ اور پارسل قرار دیا۔
خلیج میں "سلامتی اور استحکام فراہم کرنے” کا کیا مطلب ہے؟ سب سے پہلے اور سب سے اہم بات، خلیجی خطے کی سلامتی کے بارے میں صدر ایردوان کے تبصرے عام تھے۔ ترکی نے صرف الفاظ سے نہیں بلکہ اعمال سے ثابت کیا ہے کہ اگر مناسب طریقے سے کام کیا جائے تو وہ استحکام اور سلامتی فراہم کر سکتا ہے۔ اس طرح کی پہلی نشانی 2016ء میں سامنے آئی تھی، جب ترکی، شام میں داعش اور YPG/PKK کے دہشت گردوں سے لڑ رہا تھا۔ اگلے سال، اس نے قطر کی ناکہ بندی کے دوران دوحہ میں ممکنہ بغاوت کو روکا۔ 2019ء میں، ترکی نے لیبیا کے ساتھ کئی معاہدوں کا اختتام کیا اور طرابلس میں حکومت برائے قومی معاہدے (GNA) کا کامیابی سے دفاع کرنے کے لیے آگے بڑھا تھا – جس نے استحکام اور سلامتی فراہم کرنے والے ملک کے طور پر اس کے کردار کو مستحکم کیا۔ آخر کار، ترکی نے آذربائیجان کو کاراباخ کے مسئلے کو حل کرنے میں مدد دے کر اپنے اس اثر و رسوخ کا تاج پہن لیا اور دنیا پر ثابت ہو گیا کہ ترکی ایک علاقائی قوت بن چکا ہے، یہ مسئلہ تقریباً 30 سال سے جاری تھا جو ترکی کی مدد کے ساتھ حل ہوا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ متحدہ عرب امارات نے صدرایردوان کی قیادت کی تعریف کرنے اور ٹیکنالوجی، توانائی، لاجسٹکس اور دفاع سمیت وسیع شعبوں میں ترکی کے ساتھ قریبی تعاون کو آگے بڑھانے کے لیے اپنی ترک مخالف پالیسی ترک کردی۔