پرچمِ ستارہ و ہلال اب فخریہ طور پر قاراباخ کی فضاؤں میں بلند ہے، صدر ایردوان
دورۂ آذربائیجان کے لیے روانگی سے قبل صدر ایردوان نے پریس کانفرنس میں کہا کہ "الحمد للہ، 44 دن کی سخت جدوجہد کے بعد پرچمِ ستارہ و ہلال اب قاراباخ کی فضاؤں میں فخریہ طور پر بلند ہے۔”
صدر رجب طیب ایردوان نے آذربائیجان کے صدر الہام علیف کی دعوت پر دورۂ باکو سے قبل انقرہ ایئرپورٹ پر ایک پریس کانفرنس منعقد کی۔
"آذربائیجان کی کامیابی نے ہمارے دو طرفہ تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کے لیے بنیاد تیار کر دی ہے”
آذربائیجان کی آرمی نے 44 دن تک جاری رہنے والی ایک زبردست جنگ کے بعد نگورنو-قاراباخ کو آزاد کروایا ہے، اس پر زور دیتے ہوئے صدر رجب طیب ایردوان نے کہا کہ آذربائیجان کے صدر الہام علیف کی دانشمند قیادت اور آذربائیجانی فوج کی دلیری و بہادری اس فتح کی بنیادی وجوہات ہیں۔
صدر ایردوان نے کہا کہ ” الحمد للہ، 44 دن کی سخت جدوجہد کے بعد پرچمِ ستارہ و ہلال اب قاراباخ کی فضاؤں میں فخریہ طور پر بلند ہے۔” انہوں نے زور دیا کہ دونوں ملکوں کی مشترکہ تاریخ، ثقافت، یقین اور زبان کی وجہ سے ترکی نے ابتداء ہی سے اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ آذربائیجان کی حمایت کی اور یوں نگورنو-قاراباخ اور دیگر مقبوضہ آذربائیجانی علاقوں کی آزادی میں اپنا حصہ ڈالا۔
"آذربائیجان کی کامیابی نے ہمارے دو طرفہ تعلقات اور تعاون کو مزید مضبوط کرنے کے لیے بنیاد تیار کر دی ہے،” صدر ایردوان نے مزید کہا کہ ترکی نئی آزاد کردہ سرزمین کی تعمیر نو کی کوششوں میں بھی برادر آذربائیجان کے ساتھ کام جاری رکھے گا۔
"یورپی یونین نے اپنے وعدے کبھی پورے نہیں کیے”
یورپی یونین کی جانب سے 10-11 دسمبر کو ہونے والے اجلاس میں ترکی پر ممکنہ پابندیوں کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں صدر ایردوان نے کہا کہ "مجوزہ پابندیاں ہمارے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہیں۔ یورپی یونین 1963ء سے ترکی پر پابندیاں لگاتا آ رہا ہے۔ انہوں نے کبھی دیانت دارانہ کردار ادا نہیں کیا۔ کبھی اپنے وعدوں کا پاس نہیں رکھا۔ لیکن ہم نے ہمیشہ صبر سے کام لیا اور اب بھی صبر ہی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ہم دیکھیں گے کہ وہ کیا اقدامات اٹھاتے ہیں اور کیا فیصلے کرتے ہیں۔ مخلص اور دیانت دار قیادت پہلے ہی اپنے مؤقف پر ڈٹی ہوئی ہے اور ترکی کے خلاف ایسے طریقوں کے حق میں نہیں۔”
"ہم مشرقی بحیرۂ روم میں اپنے حقوق کا تحفظ کرتے رہیں گے”
یونانی وزیر اعظم کیریاکوس متسوتاکیس کے حالیہ تبصرے کہ ایتھنز نے ترکی-یونان کشیدگی کو ترکی-یورپی یونین تناؤ میں تبدیل کر دیا ہے، صدر ایردوان نے زور دیا کہ یہ یونان ہی ہے کہ جو ہمیشہ مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے سے دُور بھاگتا رہا ہے اور مزید کہا کہ "ہم مشرقی بحیرۂ روم میں ترکی کے حقوق کا تحفظ کرتے رہیں گے۔ ہم ترک جمہوریہ شمالی قبرص کے حقوق کا تحفظ کرتے رہیں گے۔ اس حوالے سے کسی بھی رعایت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن ہم بحیثیت پڑوسی یونان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لیے تیار ہیں، اگر وہ دیانت داری سے کام لے۔”
"میں بائیڈن کے لیے اجنبی نہیں، ہم ایک دوسرے کو اوباما دور سے اچھی طرح جانتے ہیں”
امریکا کی نئی انتظامیہ کے ساتھ مستقبل میں ترکی کے تعلقات کے حوالے سے ایک سوال پر صدر ایردوان نے کہا کہ "میں نو منتخب صدر جو بائیڈن کے لیے کوئی اجنبی نہیں ہوں۔ ہم اوباما دور سے ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ میں جب بیمار تھا تو وہ میرے گھر بھی آئے تھے۔ ہماری پارٹی کے ترجمان عمر چیلک بھی اس موقع پر موجود تھے۔”
یہ کہتے ہوئے کہ فی الحال ترکی اور امریکا کی نئی انتظامیہ کے مابین تعلقات کے مستقبل کے حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا، صدر ایردوان نے کہا کہ ترکی جو نیٹو کا اہم رکن ہے، شام میں دریائے فرات کے مشرقی علاقے اور ترکی کے ہتھیاروں کے حصول کے حوالے سے امریکا کے اقدامات کو پسند نہیں کرتا۔