یونان سے دھکیلے گئے 19 مہاجرین برف میں جم کر جاں بحق
جمعرات کو یونان کی طرف سے ترکی کی سرحدوں کی جانب دھکیلے گئے مہاجرین میں سے 19 جم کر جاں بحق ہو گئے جبکہ بڑی طرح متاثر ہونے والے دیگر مہاجرین بھی موجود ہیں۔ عالمی اداروں اور ترک حکام نے یونانی حکام کے اس عمل کو غیر انسانی قرار دیتے ہوئے شدید مذمت کی ہے۔
بدھ کے روز، ترک وزیر داخلہ نے ان تارکین وطن کی ہلاکتوں کی تعداد کا اعلان کیا تھا جنہیں شمال مغربی ترکی کے سرحدی صوبے ایدیرنے میں ہمسایہ ملک یونان سے واپس دھکیلنے کے بعد منجمد موسم کے رحم و کرم پر چھوڑتے ہوئے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔
ایک نئے بیان میں، ایدیرنے گورنریٹ نے جمعرات کو کہا کہ ترک حکام نے یونانی سرحد سے 10 کلومیٹر (6.2 میل) سے بھی کم فاصلے پر واقع ایپسالا ضلع کے پاساکائے گاؤں میں تلاش اور بچاؤ کی سرگرمیوں کے بعد مزید لاشیں دریافت کیں۔
اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے، صدر رجب طیب ایردوان نے یورپی یونین کے سرحدی تحفظ کے ادارے فرنٹیکس پر یونان کے ساتھ تعاون کرنے اور تارکین وطن کی ہلاکتوں پر آنکھیں بند کرنے پر تنقید کی۔
ایردوان نے جمعرات کو یوکرین جانے سے قبل ایک نیوز کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا، "فرنٹیکس یورپی یونین کی ایک بیکار تنظیم ہے جو یونان کو امداد فراہم کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتی، وہ یونان جو تارکین وطن کو سمندر، سرحدوں پر مرنے دیتا ہے۔”
وزیر داخلہ سلیمان سویلو نے ٹویٹر پر کہا تھا کہ تارکین وطن کو یونانی سرحدی فورسز نے "پیچھے دھکیل دیا” اور ان کے کپڑے اور جوتے اتار کر سرد موسم کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا اور وہ جم گئے۔
📆 02.02.2022
📍 Greece Ipsala Border12 of the 22 migrants pushed back by Greek Border Units, stripped off from their clothes and shoes have frozen to death.
EU is remediless, weak and void of humane feelings.
Greek border units thug against victims, tolerant towards FETO pic.twitter.com/EP1TOqsGCB
— Süleyman Soylu (@suleymansoylu) February 2, 2022
سویلو نے اس موقع کی متعدد تصاویر بھی شیئر کیں جن میں جاں بحق غیر قانونی تارکین وطن دیکھائے گئے، تاہم متاثرین کی شناخت کو دھندلا دیا گیا۔