افغانستان میں قیام امن کے لیے ترکی اور پاکستان کا کردار
امریکہ اور اس کے اتحادی 20 سال بعد 11 ستمبر 2021ء کو افغانستان کو چھوڑ رہے ہیں۔ 20 سال قبل جب دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان پر حملہ آور ہوئے تو انہوں نے کابل میں قائم امارت اسلامیہ افغانستان کا خاتمہ کر دیا۔ ملا عمر سمیت کئی رہنماء اس طویل جنگ کا نشانہ بنے، طالبان کو افغانستان کے مرکزی حصے سے نکال دیا گیا اور یہ دیہی علاقہ تک محدود ہو گئے تاہم اس گروہ کا مکمل طور پر خاتمہ نہ کیا جا سکا۔ اور امریکہ نے قطر میں افغان طالبان کے ساتھ پاکستان کی مدد سے کامیاب مذاکرات کیے اور افغانستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا گیا۔
افغانستان قبل از طالبان:
افغان طالبان کی کہانی روس کے ساتھ جنگ کے بعد شروع ہوتی ہے۔ روس کے ساتھ مجاہدین کی جنگ کو جہاد افغانستان کا نام دیا جاتا ہے۔ اس جنگ میں مجاہدین کے کئی گروہوں نے روس کا مقابلہ کیا اور اسے شکست سے دوچار کیا۔ روس کی پسپائی، خروج اور اس کی قائم کردہ حکومت کے خاتمے کے بعد مسئلہ یہ تھا کہ کابل پر کون سا گروہ حکومت کرے گا؟ کیا روس سے لڑنے والے تمام مجاہدین کسی ایک میز پر اکھٹے ہو کر ایک مشترکہ حکومت بنائیں گے یا نہیں۔ کابل پر مجاہدین کا قبضہ ہو چکا تھا لیکن شہر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ چکا تھا اور ہر ٹکڑے پر کوئی نہ کوئی گروہ قابض ہو چکا تھا۔ مرکزی سطح پر ایک عبوری حکومت صبغت اللہ مجددی کی قیادت میں بنائی گئی۔ پشاور معاہدہ کے بعد باقاعدہ طور پروفیسر برہان الدین ربانی افغانستان کے صدر بنے۔ لیکن گلبدین حکمت یار نے کابل پر راکٹ حملہ کر دیا۔ اگست 1992ء کا یہ راکٹ حملہ ایک خوفناک حملہ سمجھا جاتا ہے جس میں 1800 سے زائد افغانی جاں بحق ہو گئے تھے۔ گل بدین حکمت یار کو اسی وجہ سے کابل کا قصائی قرار دیا جاتا ہے۔ وہ کابل میں قائم حکومت میں اپنا حصہ چاہتے تھے۔ جہاد روس کے بعد اس خانہ جنگی کو روکنے کے لیے گل بدین حکمت یار کو وزیراعظم بنا دیا گیا۔ اس کے باوجود صدر ربانی پر قاتلانہ حملہ ہوا اور حالات کشیدہ رہے۔ گل بدین حکمت یار کابل میں وزیراعظم ہونے کے باوجود داخل نہ ہو سکے۔
طالبان کا احیاء:
اس خانہ جنگی کی صورت حال میں افغانستان کے مدارس کے طلباء نے مل کر تحریک اسلامی افغانستان کے نام سے ایک عسکری تنظیم کی بنیاد قندھار میں رکھی جس کی مالی، لاجسٹک اور ملٹری سپورٹ پاکستان کی طرف سے کی گئی۔ اس کے بانی سربراہ ملا عمر تھے۔ طالبان نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے افغانستان پر قبضہ کر لیا اور کابل کے دروازوں پر جا پہنچے جہاں اقتدار کے لالچ میں مجاہدین باہم دست و گریبان تھا۔ دوسرے سال ہی انہوں نے کابل پر بھی قبضہ کر لیا۔ یوں صدر پروفیسر برہان الدین ربانی بھاگنے پر مجبور ہوئے اور شمالی اتحاد میں شامل ہو کر طالبان کی مزاحمت کی۔ اور یہ جنگ 9/11 کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی آمد تک جاری تھی۔
امریکہ اور اس کے اتحادی 20 سال بعد 11 ستمبر 2021ء کو افغانستان کو چھوڑ رہے ہیں۔ تاہم کابل میں ایسی کوئی حکومت موجود نہیں ہے جو افغانستان میں قیام امن کو یقینی بنا سکے۔ طالبان دیہی علاقوں سے اٹھ کر دوبارہ شہروں پر قبضہ کر رہے ہیں اور کابل پر دوبارہ بزور طاقت قبضہ چاہتے ہیں اور افغانستان کی دیگر اکائیوں کے بغیر اقتدار کرنے کے خواہاں ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادی، افغانستان کے مسائل کو انہی پر چھوڑ کر فرار ہو رہے ہیں جہاں ایک اور خانہ جنگی سر اٹھانے کو ہے۔
ترکی کا افغانستان میں قیام پر اصرار:
ترکی نے ناٹو میں ایک تجویز پیش کی ہے کہ وہ افغانستان کے استحکام اور امن کے لیے مزید قیام کرنا چاہتا ہے۔ اسے اس کے مسائل کے ساتھ چھوڑ کر فرار نہیں ہونا چاہتا۔ کابل میں قائم ںظام میں شریک قوتیں بھی افغانستان کا حصہ ہیں اور طالبان بھی کابل پر قبضہ کر کے اقتدار کرنے والا ایک مضبوط گروہ ہے۔ ان کے ٹکراؤ کو روکنے کے لیے ترکی اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ عمومی طور پر ترکی کو افغانستان کی غیر پشتون اکائی کا ہمدرد سمجھا جاتا ہے تاہم ترکی پورے افغانستان کا ہمدرد اور وہاں امن کا خواہاں ہے۔
کیا ترکی اور پاکستان، افغانستان میں قیام امن کے لیے کردار ادا کر سکتے ہیں؟
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے انخلاء کے بعد طالبان کا خیال ہے کہ افغانستان پکے ہوئے پھل کی طرح ان کی جھولی میں گر پڑے گا۔ کابل حکومت اور اس نظام کے حصہ داروں کو کچلنا ان کے لیے بہت آسان ہو جائے گا۔ اس لیے وہ افغانستان کے مستقبل میں کسی بھی بیرونی قوت کی دخل اندازی کو پسند نہیں کرتے جو ان کے اس راستے میں رکاؤٹ بنے یا غیر طالبان سے ٹکراؤ کو روکنے کی کوشش کرے۔ اسی لیے افغان طالبان نے ترکی کی اس تجویز کو بھی مسترد کر دیا ہے۔ اس سے قبل وہ طالبان جو قطر اور اسلام آباد میں امریکہ سے مذاکرات کے لیے حاضر تھے، استنبول میں امن مذاکرات کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ شاید اس کی وجہ ترکی کا غیر طالبان یا غیر پشتون قوتوں کا حامی ہونا ہے۔ تاہم ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان اور طالبان کے درمیان اچھے روابط موجود ہیں اور قطر ہو یا اسلام آباد، پاکستان نے طالبان کو مذاکرات پر راضی کیا ہے۔ اس پس منظر میں افغانستان میں قیام امن کے لیے ترکی اور پاکستان مل کر ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور کسی بھی خونریزی، ٹکراؤ اور خانہ جنگی کا امکان ختم کر سکتے ہیں اور ایک مشترک نظام پر طالبان اور غیر طالبان کو راضی کر سکتے ہیں۔
بلاگ پر تبصرہ نیچے کمنٹ سیکشن میں کیا جا سکتا ہے