افغانستان میں ترکی کا بطور "پلے میکر” کردار لیکن پاکستان کے ساتھ ہی ممکن ہے

0 2,181

شہنشاہی مزاج رکھنے والے ممالک میں دوسری ریاستوں پر حکومت کرنے کا انتظامی کلچر موجود ہے۔ رومن سلطنت اور اس کے بعد سلطنت عظمانیہ اس کلچر کی بنیاد پر کئی براعظموں پر وسیع تر ریاستوں پر حکمرانی کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ بطور خاص، برطانوی سلطنت حقیقی طور پر ایک عالمی سلطنت بن گئی جس پر یہ جملہ بہت زیادہ مشہور ہوا کہ برطانوی سلطنت میں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا۔ یہ اس کی پیچیدہ نوآبادیاتی انتظامیہ کی وجہ سے ممکن ہوا تھا۔

دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد، جیسے ہی برطانوی راج دنیا سے ہٹا، امریکہ اثر و رسوخ دنیا پر بڑھنا شروع ہو گیا اور عملاً برطانیہ کی جگہ امریکہ نے لے لی۔

جلد ہی دنیا دو مخالف حصوں میں تقسیم کر دی گئی جس میں ایک طرف امریکہ کے اثرات کے تحت آزاد مارکیٹ رکھنے والی ریاستیں تھیں تو دوسری طرف سوشلسٹ ریاستیں جو سویت یونین کے زیر سایہ جی رہی تھیں۔

امریکی ظہور:

جیسے ہی ان دو مخالف دھڑوں کی موجودگی میں سوشلسٹ معیشتوں کا خاتمہ ہوا۔ یہ نظریاتی دشمنی بھی ختم ہو گئی۔ اور دنیا میں صرف امریکی ورلڈ آرڈر کا غلبہ ہو گیا۔

ایسے منظرنامہ میں امریکی انتظامیہ کو کھلی آزادی مل گئی کہ جہاں چاہیں قبضہ کر لیں یا کوئی بغاوت کھڑی کر دیں جس سے وہ ریاست کمزور ہو جائے اور پھر وہاں عالمی اداروں کی مدد سے اپنا ورلڈ آرڈر تشکیل دیا جائے۔ اس ضمن میں اقوام متحدہ کا کردار انتہائی بھیانک رہا ہے جس سے دنیا یونی پولر ہو کر رہ گئی۔

امریکہ نے جھوٹے بہانوں کے ساتھ افغانستان اور پھر عراق پر حملہ کیا۔ ان امریکی حملوں کو "دہشتگردی کے خلاف جنگ” کے نام سے غیر قانونی سرگرمیوں کو قانونی حیثیت دینے کی کوشش کی گئی۔ تاہم دو دہائیوں کے ان فوجی قبضوں کے باوجود، یہ جنگ زدہ ممالک ابھی بھی سیاسی بحرانوں کا شکار ہیں۔

تقریباً دس لاکھ سے زائد انسان افغانستان میں کارپٹ بمباری کا نشانہ بن گئے۔ جیسے ہی پھر امریکہ نے یہاں سے انخلاء کیا، فوری طور پر طالبان نے شہروں پر دوبارہ قبضہ کرنا شروع کر دیا۔

اسی طرح عراق امریکہ اور ایران کی دشمنی کا جنگی میدان بن گیا۔  وہاں بھی لاکھوں لوگ زندگی سے جان دھو بیٹھے۔ اور داعش اور ایران نواز ملیشیاء پورے عراق میں پھیل گئی۔

دریں اثنا، پورے مشرق وسطی کے خطے میں سیاسی عدم استحکام پھیل گیا۔ 2011ء کے بعد، شام نہ صرف خانہ جنگی سے تباہ ہوا بلکہ اس کی تباہی میں عالمی اور علاقائی طاقتوں کی دشمنی بھی شامل رہی ہے۔

ترکی کا کردار:

اس پورے خطے کے ساتھ مضبوط سیاسی، معاشی اور ثقافتی تعلقات رکھنے کے وجہ سے ترکی مشرق وسطیٰ میں ایک تعمیری "پلے میکر” کے طور پر ابھرا ہے۔ انقرہ نے داعش اور پی کے کے دہشت گرد تنظیم کے خلاف براہ راست آپریشنز کے ذریعے عراق اور شام کی علاقائی سالمیت کو یقینی بنایا ہے۔

اور اب افغانستان میں امریکی انخلاء کے بعد ترکی نے حامد کرزئی ائیرپورٹ سنبھالنے کی اہم ذمہ داری اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ تجویز امریکہ کی جانب سے نہیں بلکہ ترک صدر رجب طیب ایردوان کی جانب سے امریکہ کو پیش کی گئی تھی۔

کیا افغانستان میں ترکی نے یہ فیصلہ کرتے ہوئے طالبان کے مد مقابل آ کر خود کو آگ میں ڈال رہا ہے یا ترکی ایک "پلے میکر” کے طور پر اپنی ماضی کی کردار اور حیثیت کو استعمال کرتے ہوئے افغانستان میں سیاسی استحکام کا ضامن بنے گا؟

شمالی شام میں ترکی نے بہت بڑی کامیابی حاصل جب درجنوں شہروں کو آزاد شامی فوج کی مدد سے استحکام بخشتے ہوئے وہاں امن کو یقینی بنایا ہے۔ تمام پبلک سروسز عوام تک پہنچی ہیں اور ایک قابل ذکر مہاجرین کی تعداد واپس اپنے شہروں میں گئی۔ اگرچہ اب بھی وہاں پی کے کے دہشتگرد تنظیم خود کش بم کر کے امن کو نقصان پہنچانے اور ترکی کے مثبت کردار کو ملیا ملیٹ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

لیبیائی توازن:

ترکی نے لیبیا میں بھی اپنے اس "پلے میکر” کردار کو بخوبی نبھایا ہے۔ وہاں ترکی کی آمد سے قبل خانہ جنگی عروج پر تھی اور باغی جنرل حفتار کی زمینی فوجیں مضبوط ہو رہی تھیں جبکہ اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ حکومت لیبیا کے دارالحکومت تک محدود ہو چکی تھی۔

ترکی کی غیر مستحکم حمایت کی بدولت لیبیا کی تسلیم شدہ حکومت کو تقویت ملی، اب لیبیا بتدریج ایک مستحکم ملک میں تبدیل ہو رہا ہے۔

مجھے یقین ہے کہ ترکی کی تاریخی میراث، انتظامی طاقت اور خطے کے ساتھ ثقافتی تعلقات افغانستان کو سیاسی اور معاشی لحاظ سے ایک مستحکم ملک بننے میں معاون ثابت کریں گے۔

تاہم یہ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب ترکی تمام فریقوں کے لئے قابل اعتبار ثالث بننے میں کامیاب ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں افغانستان کی علاقائی سالمیت کو یقینی بنایا جاسکتا ہے اور اسے استحکام کے راستے پر ڈالا جا سکتا ہے۔

اس مقصد کو انجام دینے کے لئے، ترکی کو پاکستان کی مدد کی ضرورت ہے۔

افغانستان میں سیاسی استحکام مجموعی طور پر خطے کے استحکام کو یقینی بناسکتا ہے، لہذا ضروری ہے کہ ترکی اور پاکستان دونوں خطے کے سرکردہ "پلے میکرز” کی حیثیت سے مل کر کام کریں۔

تبصرے
Loading...
%d bloggers like this: