ترکی افغانستان کے حوالے سے محتاط رویہ رکھتا ہے، صدر ایردوان
صدر رجب طیب ایردوان نے افغانستان میں طالبان کی جانب سے عبوری حکومت کے قیام کے لیے اعلان کے بعد کہا ہے کہ ترکی افغانستان میں ہونے والی پیش رفت کو قریب سے دیکھ رہا ہے۔
ملا محمد حسن اخوند کو رہنما مقرر کرنے کے اعلان کے بعد تبصرہ کرتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا کہ انہیں اندازہ نہیں کہ نئی حکومت کی موجودہ صورت کتنے عرصے برقرار رہے گی۔ "آپ بھی جانتے ہیں کہ اس حکومت کو مستقل کہنا ابھی مشکل ہے، لیکن عبوری کابینہ کا اعلان کر دیا گیا ہے۔” وہ ترکی کے دورے پر آئے ہوئے کانگو کے صدر فیلکس شیسے کیدی کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
قبل ازیں وزیر خارجہ مولود چاؤش اوغلو نے بھی محتاط بیان دیا تھا کہ بین الاقوامی برادری کو طالبان کو تسلیم کرنے میں جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ ہمارا دنیا کو یہی مشورہ ہے۔ ہمیں بین الاقوامی برادری کی حیثیت سے مل کر کام کرنا چاہیے۔
ترکی کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کو چلانے کے حوالے سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے اور سفارتی طور پر اب بھی موجودگی رکھتا ہے۔
چاؤش اوغلو نے کہا کہ ترکی قطر اور امریکا کے ساتھ مل کر ان شرائط پر کام کر رہا تھا کہ جس کے تحت ہوائی اڈے کو امداد بھیجنے، پھنسے ہوئے شہریوں کو نکالنے اور کابل میں سفارت خانوں کے دوبارہ قیام کے لیے کھولا جانا تھا۔ لیکن انہوں نے کہا کہ سکیورٹی اب بھی اہم ترین نقطہ ہے اور کمرشل پروازیں کبھی شروع نہیں ہوگی جب تک کہ ایئر لائنز اور ان کی انشورنس کرنے والوں کو حالات محفوظ محسوس نہیں ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں طالبان ہوائی اڈے کے باہر سکیورٹی کو یقینی بنا سکتے ہیں لیکن ایئرپورٹ کے اندر یہ بین الاقوامی برادری کا اعتماد رکھنے والی سکیورٹی کمپنی کر سکے گی۔ چاہے ترکش ایئر لائنز جیسے ادارے کابل کے لیے پروازیں چلانا بھی چاہیں تو انشورنس کمپنیاں اس کی اجازت نہیں دیں گی۔