ترکی کی جانب سے ایران کے جارحانہ رویّے پر تنقید
ترکی نے آذربائیجان میں منعقدہ ایک تقریب میں صدر رجب طیب ایردوان کی جانب سے ایک نظم پڑھنے پر ایران کے جارحانہ ردعمل کی مذمت کی ہے۔
ہفتے کو کمیونی کیشنز ڈائریکٹر فخر الدین آلتن کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس نظم کے معنی سیاق و سباق سے ہٹ کر لیے گئے ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ "اس نظم کے حوالے سے مصنوعی تناؤ پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جو باکو میں وکٹری پریڈ میں پڑھی گئی ہے، جو آرمینیا کے قبضے سے آذربائیجانی علاقے چھڑانے کے جشن کے لیے منعقد ہوئی۔ صدر رجب طیب ایردوان نے جو نظم پڑھی آرمینیا کے قبضے سے متاثر ہونے والے "مظلوم لوگوں کے جذبات انگیز تجربات” کی عکاسی کر رہی ہے۔ اس میں ایران یا کسی بھی دوسرے ملک کا کوئی حوالہ یا ان کی جانب اشارہ نہیں تھا۔
آلتن نے کہا کہ ایرانی وزیر اطلاعات محمد جواد آذری کی جانب سے صفوی دور (1501-1722ء) کا ایران کا نقشہ پیش کرنا ترکی مخالف مہم کو مزید بڑھا رہا ہے، اور زور دیا کہ ایسی کوئی بھی حرکت خطے میں امن کے فروغ کی کوششوں کے لیے نقصان دہ ہوگی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ "ہم ترکی یا کسی بھی دوسرے ملک کی علاقائی سالمیت پر ایسے دعووں کو برداشت نہیں کر سکتے۔”
انہون نے یاد دلایا کہ ترکی بین الاقوامی دباؤ کا خطرہ مول لے کر بھی ایرانی ریاست اور عوام کے ساتھ یکجہتی رکھتا ہے، اور ایران کو عداوت کے بجائے مثبت ذہن کے عوام کی مشترکہ تاریخ سامنے رکھنے کی بات کرتا ہے۔
ایران کی جانب سے نظم کے حوالے سے ترک سفیر کو طلب کیے جانے کے بعد ترک وزارت خارجہ نے جمعے کو ایرانی سفیر کو طلب کیا تھا۔
ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے دعویٰ کیا تھا کہ جو نظم طیب ایردوان نے پڑھی ہے وہ ایران کی علاقائی سالمیت کو ہدف بناتی ہے۔