ترکی کے اٹھتے ہوئے قدم اور ایک صدی قبل کے اعلانِ جنگِ آزادی کی وجہ سے اسے بدترین گھیراؤ کا سامنا ہے، صدر ایردوان
اتاترک کی برسی کے موقع پر صدر رجب طیب ایردوان نے کہا ہے کہ "ترکی کے اٹھتے ہوئے قدم اور ایک صدی قبل کے اعلانِ جنگِ آزادی کی وجہ سے اسے بدترین گھیراؤ کا سامنا ہے۔ اگر ہم اُن محدود سرحدوں میں رہتے جو ہمارے لیے بنائی گئی تھیں، اگر ہم اطاعت سے انکار نہ کرتے، یا اگر ہم عوام کے بجائے بڑی طاقتوں کی طرف متوجہ ہوتے تو ہمیں آج کسی رکاوٹ کا سامنا نہ ہوتا۔ لیکن اس صورت میں ہم اپنی قوم کو ضرور مایوس کرتے۔”
صدر رجب طیب ایردوان نے غازی مصطفیٰ کمال اتاترک کی 82 ویں برسی کی تقریب سے خطاب کیا۔
صدر نے کہا کہ "میں جنگِ آزادی کے کمانڈر انچیف اور بانی جمہوریہ اور اپنے پہلے صدر غازی مصطفیٰ کمال اتاترک کی 82 ویں برسی پر ان کے لیے دعاگو ہوں۔”
"ہم اطاعت قبول کرنے سے انکار نہ کرتے تو اپنی قوم کو مایوس کرتے”
صدر ایردوان نے کہا کہ "ترکی کے اٹھتے ہوئے قدم اور ایک صدی پہلے اعلانِ جنگِ آزادی کی وجہ سے اسے بدترین گھیراؤ کا سامنا ہے۔ اگر ہم اُن محدود سرحدوں میں رہتے جو ہمارے لیے بنائی گئی تھیں، اگر ہم اطاعت سے انکار نہ کرتے، یا اگر ہم عوام کے بجائے بڑی طاقتوں کی طرف متوجہ ہوتے تو ہمیں آج کسی رکاوٹ کا سامنا نہ ہوتا۔ لیکن اس صورت میں ہم اپنی قوم کو ضرور مایوس کرتے۔”
"ہم ایسے مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں ہر خطے کے حوالے سے اور ہر عالمی مسئلے پر ترکی کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ اہمیت رکھتا ہے”
گزشتہ 18 سال میں ترکی کی ترقی کی جانب توجہ دلاتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا کہ ترکی اب دنیا بھر میں اپنے تمام تاریخی و تہذیبی ورثوں کے دفاع کی صلاحیت رکھتا ہے۔
صدر نے کہا کہ "ہم ایسے مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں ہر خطے کے حوالے سے اور ہر عالمی مسئلے پر ترکی کی زبان سے نکلا ہوا لفظ سُنا جاتا ہے، جہاں اس کا رویّہ اہمیت رکھتا ہے اور جس فریق کا وہ ساتھ دیتا ہے وہ فائدہ حاصل کرتا ہے۔” انہوں نے گزشتہ 18 سال کی کامیابیوں میں معیشت کا خاص طور پر ذکر کیا۔
"ترکی نے کم از کم نقصان کے ساتھ وبائی حالات پر قابو پایا”
اس امر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیاں ریٹنگز جاری کرتے ہوئے معروضی اصول کی پیروی میں ناکام رہتی ہیں اور مغربی میڈیا کے ادارے ترکی کو بے بنیاد تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، صدر ایردوان نے کہا کہ "ہم سب ان کو دیکھ رہے ہیں جو خود ساختہ جمہوریت کے پشتیبان بنے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود باغیوں اور غاصب حکومتوں کی حمایت کرتے ہیں صرف اس لیے کہ ترکی قانونی حکومتوں اور مظلوموں کے ساتھ ہے۔ ایسے ماحول میں کون دعویٰ کر سکتا ہے کہ معیشت میں ہمیں جن حالات کا سامنا ہے وہ حقیقی معاملات کا نتیجہ ہیں؟ اس کے باوجود کہ کووِڈ-19 نے موجودہ معاشی مسائل کو دنیا بھر میں مزید گمبھیر بنا دیا ہے، ترکی کم از کم نقصان کے ساتھ وبائی حالات پر قابو پانے میں کامیاب رہا۔”
"ہم اب ان کے خلاف تاریخی اہمیت کی حامل جدوجہد کر رہے ہیں جو ترکی کو ایک مرتبہ پھر اطاعت پر مجبور کرنا چاہتے ہیں”
سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے میں مشروط اطاعت اور قرضوں کی جکڑبندیوں کا حوالہ دیتے ہوئے صدر ایردوان نے زور دیا کہ غازی مصطفیٰ کمال اتاترک اور جمہوریہ ترکی کے اہم ترین کارناموں میں سے ایک یہ ہے کہ ترکی نے تمام تر دھونس دھمکیوں کے باوجود کسی کی اطاعت نہیں کی۔ "ہم اب ان کے خلاف تاریخی اہمیت کی حامل جدوجہد کر رہے ہیں جو ترکی کو ایک مرتبہ پھر اطاعت پر مجبور کرنا چاہتے ہیں، شرحِ سود، شرحِ تبادلہ اور افراطِ زر جیسی جدید جکڑ بندیوں کے ذریعے۔ آزاد مارکیٹ معیشت کے قواعد پر کبھی سودے بازی کرتے ہوئے، نجی شعبے کے ہاتھوں ترقی برقرار رکھنے کے اپنے عزم کو نہ چھوڑتے ہوئے اور اس حقیقت کو کبھی نہ بھلاتے ہوئے کہ پیسے کی کوئی قومیت یا سرحد نہیں ہوتی، ہم پوری محنت کے ساتھ اپنا کام جاری رکھیں گے۔ ”