ممکنہ زمینی آپریشن، ترکی نے مزید فوجی شام بھیج دیے
ترک فوج نے شام میں حزبِ اختلاف کے ماتحت علاقے ادلب کی ایم4 ہائی وے پر مزید فوجی لگا دیے ہیں اور اب وہ شامی حکومت کے بڑھتے ہوئے حملوں کے دوران کسی بھی ممکنہ زمینی آپریشن کے لیے تیار ہے۔
اگست سے شمال مغربی صوبے ادلب پر بشار اسد کی حکومت اور اس کے پشت پناہ روس کے حملے بڑھ گئے ہیں، جو ان کی حزبِ اختلاف کے آخری گڑھ پر ہفتوں سے جاری مہم کا حصہ ہیں۔
ترکی نے اگلے ہفتے روس اور ایران کے رہنماؤں کی ایک اہم ملاقات سے قبل شمال مغربی شام کے اس علاقے میں ہزاروں اضافی دستے تعینات کیے ہیں۔
قبل ازیں، ستمبر میں شمالی شام میں ترکی کی حمایت یافتہ سیریئن نیشنل آرمی کے تحت پانچ عسکری گروہوں نے سیریئن لبریشن فرنٹ کے نام سے اتحاد کیا۔
ضلع الباب میں منعقد تقریب میں پانچ ڈویژنز نے اعلان کیا کہ وہ ضم ہو چکے ہیں اور ترک مسلح افواج کے ساتھ مل کر ان علاقوں کو دہشت گردی سے پاک کریں گے۔
ادلب مارچ 2020ء کے ترکی-روس معاہدے کے تحت ڈی ایسکلیشن زون میں آتا ہے، اس کے باوجود شامی حکومت مسلسل فائر بندی کے معاہدوں کی خلاف ورزی کر رہی ہے اور اس زون کے اندر متعدد بار حملے کر چکی ہے۔
ادلب تقریباً 30 لاکھ لوگوں کا مسکن ہے، جن میں سے دو تہائی ملک کے دیگر علاقوں میں بے گھر ہونے والے افراد ہیں۔
11 ستمبر 2021ء کو ایک حملے میں ترک فوجیوں کی ایک گاڑی کو نشانہ بنایا گیا کہ جو ایک سرچ مشن سے واپس آ رہی تھی۔ اس حملے میں دو ترک فوجی جاں بحق اور تین زخمی ہوئے تھے۔
اپریل 2018ء کے بعد سے ادلب پر حملوں میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے ترک سرحد کی جانب مہاجرین کی آمد بھی بڑھی ہے اور پہلے ہی 37 لاکھ شامی مہاجرین کی میزبانی کرنے والا ترکی سخت مشکل صورت حال سے دوچار ہو گیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ترکی نے حالیہ چند ہفتوں سے خطے میں فوجی دستے اور ساز و سامان اتارا ہے تاکہ شامی فوج کے بڑھتے ہوئے قدموں اور مہاجرین کی ممکنہ نئی لہروں کو روکا جا سکے۔
فی الحال ترک فوج کا مقصد مقامی آبادی کو تحفظ دینا اور دہشت گردی کے خلاف آپریشنز میں مدد فراہم کرنا ہیں۔ معاملات میں شدت آنے کے باوجود انقرہ نے اپنے سفارتی دروازے کھلے رکھے ہیں اور امید رکھتا ہے کہ روس کے ساتھ سیاسی حل تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔