ترکی اور مصر کے مذاکرات کا دوسرا مرحلہ شروع
ترکی اور مصر کے مابین سیاسی مشاورت کے دوسرے مرحلے کا آغاز ہو گیا ہے۔
ترک نائب وزیر خارجہ سیدات اونال اور ان کے مصری ہم منصب حمدی سند لوزا نے اپنے ملکوں کے وفود کی قیادت کی۔
ترک وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق مذاکرات کے پہلے دن دونوں وفود نے دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال کیا جبکہ علاقائی معاملات پر دوسرے روز یعنی بدھ کو بات چیت کی جائے گی۔
ترکی نے رواں سال مصر کے ساتھ سفارتی روابط بحال کیے تھے اور وہ سالوں کے تناؤ کے بعد تعلقات کو بہتر بنانے کا خواہاں ہے۔ ان مذاکرات کا پہلا مرحلہ مئی میں قاہرہ میں ہوا تھا جو 2013ء کے بعد دونوں ملکوں کا پہلا اعلیٰ سطحی رابطہ تھا۔
ترکی کے مصر اور دیگر عرب ریاستوں سے اختلافات کی بنیاد 2011ء میں عرب بہار کے دوران پڑی جس میں مشرق وسطیٰ کے کئی ملکوں میں عوام نے آمروں اور بادشاہوں کے خلاف احتجاج کیا اور کئی ملکوں میں حالات خانہ جنگی تک پہنچ گئے جس میں ترکی عوام اور جمہوریت پسند طاقتوں کے ساتھ تھا اور یہ عرب دنیا سے براہ راست ٹکر لینے کے مترادف تھا۔
پھر 2013ء میں جب مصر میں فوج کے سربراہ عبد الفتاح السیسی نے ملکی تاریخ کے پہلے منتخب صدر اور ترکی کے اہم اتحادی محمد مُرسی کی حکومت کا تختہ الٹا تو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات زوال کی انتہا تک پہنچ گئے۔
ترکی نے مصر سے اپنا سفیر تک واپس بلا لیا اور مصر نے بھی جواب میں یہی قدم اٹھایا۔ تب سے آج تک دونوں ممالک کے تعلقات نائب سفارت کار کے طور پر چل رہے ہیں۔
بہرحال، اب ترک وزیر خارجہ مولود چاؤش اوغلو کہتے ہیں کہ ان کا ملک بہتر تعلقات کے لیے "مثبت قدم” اٹھا رہا ہے۔ "وزارت خارجہ میں ہمارے ساتھی مصری حکام سے ملاقات کر رہے ہیں۔ اگر معاملات طے پا گئے تو سفیر کی تعیناتی کے لیے ضروری اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات میں کوئی دیرپا دوستی یا دشمنی نہیں ہوتی۔”
مولود چاؤش اوغلو نے امکان ظاہر کیا کہ مشرقی بحیرۂ روم میں مصر کے ساتھ ایک بحری معاہدہ ہو سکتا ہے جیسا کہ 2019ء میں لیبیا کے ساتھ کیا گیا تھا۔ اس معاہدے نے ترکی اور یونان کے تعلقات میں نئی کشیدگی پیدا کرتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ "مصر کو اس معاہدے سے کہیں زیادہ حاصل ہوگا۔”
ترک وزیر خارجہ نے تنازعات کے حل کے لیے مشرقی بحیرۂ روم کے ممالک کا اجلاس طلب کرنے کی بھی پیشکش کی۔
ترکی کے مصر، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات مختلف معاملات پر خرابی سے دو چار ہوئے تھے جن میں لیبیا کا معاملہ بھی شامل ہے کہ جہاں انقرہ اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ حکومت کے ساتھ تھا جبکہ عرب ممالک اس کے حریف باغی جرنیل خلیفہ حفتر کے ساتھ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا میں حکومت کی تبدیلی، مشرقی بحیرۂ روم میں قدرتی گیس کے ذحائر کی دریافت کے علاوہ مشرق وسطیٰ میں نئے اتحاد کی تعمیر نے بھی انقرہ اور قاہرہ کے درمیان سفارت کاری کو بڑھایا ہے۔
رواں سال مجموعی طور پر خطے میں کشیدگی میں کمی آئی ہے۔ پہلے سعودی عرب اور دیگر ممالک کی جانب سے قطر کے بائیکاٹ کا خاتمہ ہوا، پھر ترک صدر رجب طیب ایردوان نے سعودی شاہ سلمان بن عبد العزیز سے رابطہ کیا اور پھر گزشتہ ہفتے امارات کے ولی عہد محمد بن زاید سے بھی فون پر بات ہوئی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پیش رفت سے یونان، یونانی انتظامیہ، اسرائیل اور فرانس کے عزائم کو ٹھیس پہنچے گی۔