توقع رکھتے ہیں کہ یونان ترکی کے مفادات کا احترام کرے گا، صدر ایردوان
صدر رجب طیب ایردوان نے کہا ہے کہ ترکی یونان سے توقع رکھتا ہے کہ وہ اس کے حقوق اور مفادات کا احترام کرے گا اور صورت حال بدلنے اور یک طرفہ اقدامات اٹھانے کی کوشش نہیں کرے گا کیونکہ انقرہ بحیرۂ ایجیئن کے خطے کو دوستانہ تعلقات کا مرکز بنانا چاہتا ہے۔
صدر دوکوز ایلول اور باشکنت جامعات کی جانب سے مشترکہ طور پر منعقد کیے گئے سمپوزیئم سے خطاب کر رہے تھے جو 1922ء میں قابض یونانی افواج کے خلاف فیصلہ کن اقدام کی یاد میں منعقد کیا گیا تھا۔
یہ کہتے ہوئے کہ انقرہ ایتھنز سے توقع رکھتا ہے کہ وہ ترکی کے حقوق کا احترام کرے گا، صدر ایردوان نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ دونوں ممالک انصاف، تعاون اور پڑوسیوں کے تعلقات کی بنیاد پر مسائل کا حل ڈھونڈ سکتے ہیں۔
صدر نے کہا کہ ” اپنے بچوں کے لیے ورثے میں مسائل چھوڑنے کے بجائے ہم یقینی بنانا چاہیں گے کہ انہیں ایک مستحکم، پر امن اور محفوظ مستقبل دیں۔”
بحیرۂ ایجیئن کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا کہ یہ علاقہ تعاون اور امن کی علامت کے بجائے انسانی بحرانوں کی وجہ سے سرخیوں میں آ رہا ہے۔ وہ مہاجرین کے بحران کی جانب توجہ دلا رہے تھے کیونکہ ہزاروں غیر قانونی مہاجرین بحیرۂ ایجیئن پار کر کے ہی یورپ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
صدر ایردوان نے کہا کہ "شام سے مہاجرین کی زبردست لہر کی آمد کے سامنے ترکی کو تنہا چھوڑ دیا گیا اور یونان نے ان کوششوں میں ہاتھ بٹانے کے بجائے اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں کو تیز تر کیا۔” انہوں نے مہاجرین کے بحران میں انقرہ کے ساتھ تعاون کر کے باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کا تاریخی موقع ضائع کرنے پر ایتھنز کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
ایردوان نے یہ بھی کہا کہ ترکی ایجیئن کو دوستی کا علاقہ بنانا چاہتا ہے اور یونانی اشتعال انگیزی کے باوجود ہمیشہ پُر سکون رویہ اختیار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ "ہم یونان کے ساتھ شفافیت، انصاف اور تعاون کی بنیاد پر حل ڈھونڈیں گے۔”
اس موقع پر وزیر دفاع خلوصی آقار نے بھی خطاب کیا اور کہا کہ یونان کو نہیں بھولنا چاہیے کہ اسے ایک صدی پہلے کتنی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی اور اس کی نئی مہم جوئیوں کا انجام بھی افسوس ناک ہوگا۔
واضح رہے کہ ترکی اور یونان یورپ جانے کے خواہش مند مہاجرین کا اہم راستہ ہیں۔ ترکی یونان پر بڑے پیمانے پر مہاجرین کو واپس دھکیلنے اور انہیں سیاسی پناہ کے بجائے ملک بدر کرنے کے الزامات بھی عائد کر چکا ہے، جو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔