افغان مہاجرین کا بحران، ترکی اور ایران متاثرین میں شامل

0 799

ترکی اور ایران مہاجرین کے مسائل سے متاثر ہونے والے نمایاں ملکوں میں شامل ہیں اور ترک پارلیمان کے اسپیکر مصطفیٰ شین توپ کہتے ہیں کہ افغانستان میں طالبان کے بڑھتے قدم دیکھ کر مزید تناؤ سے دو چار ہو گئے ہیں۔

ترک اسپیکر دورۂ تہران میں ایران کی پارلیمنٹ کے سربراہ محمد باقر قالیباف سے ملاقات کر رہے تھے، جس میں ان کا کہنا تھا کہ افغان مہاجرین اور افغانستان میں عدم استحکام تمام اسلامی ممالک کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ "ہمیں افغانستان کے استحکام کو یقینی بنانے اور مہاجرین کے بحران کو روکنے کے لیے باہمی تعاون کو بڑھانا ہوگا۔”

شین توپ نے اس امر پر بھی زور دیا کہ PKK پورے خطے کے لیے ایک خطرہ ہے اور اس سلسلے میں تعاون کو بڑھانے پر بھی زور دیا۔

افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد ملک سے مہاجرین کی نئی لہر نکلنے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ کئی وڈیوز سے ظاہر ہوتا ہے کہ مہاجرین کی بڑی تعداد ایرانی سرحد پر موجود ہے البتہ ترک حکومت کہتی ہے کہ ابھی تک مہاجرین کی آمد میں کوئی نمایاں اضافہ نہیں دیکھا گیا۔

ترکی تقریباً 40 لاکھ مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے اور اس وقت اپنی مشرقی سرحد کے تحفظ کے لیے جدید اقدامات اٹھا رہا ہے۔ ملک میں شامیوں کے بعد سب سے زیادہ مہاجرین افغان ہی ہیں۔

گزشتہ ہفتے ترک وزیر دفاع خلوصی آقار نے کہا تھا کہ اضافی دستوں اور نئے اقدامات کے ذریعے ایرانی سرحد کی نگرانی بڑھا دی گئی ہے۔

ترکی ایران کے ساتھ 300 کلومیٹرز سرحد کے کئی حصوں پر ایک دیوار بھی کھڑی کر رہا ہے۔ عموماً ایران سے داخل ہونے والے مہاجرین کام کی تلاش کے لیے استنبول کا یا پھر یورپ جانے کے لیے کسی دوسرے ساحلی شہر کا رخ کرتے ہیں۔

گزشتہ چند ماہ کے دوران افغانستان میں طالبان کی کارروائیوں میں اضافہ ہو گیا ہے اور وہ امریکی فوج کے انخلا کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یوں ایک نیا انسانی بحران جنم لینے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان کے 3.8 کروڑ باشندوں کو فوری امداد کی ضرورت ہے اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ملک کے لیے مالی امداد برقرار رکھے۔

صدر رجب طیب ایردوان نے بھی حال ہی میں کہا تھا کہ ترکی اور افغان حکام کے مابین ان معاملات پر اعلیٰ سطحی مذاکرات ہو رہے ہیں۔ یہ معاملہ انقرہ اور برسلز کے باہمی مذاکرات کا بھی حصہ ہوگا جو یورپی یونین میں پناہ لینے کے خواہش مند مہاجرین کی میزبانی کرنے پر ترکی کو ملنے والی امداد پر 2016ء کے معاہدے کے حوالے سے ہوگا۔

تبصرے
Loading...
%d bloggers like this: