ترکی وباء کے بعد کی دنیا میں ایک مضبوط، طاقتور اور اہم عالمی کردار کی حیثیت سے داخل ہونے کے لیے پرعزم ہے، صدر ایردوان
صدارتی کابینہ کے اجلاس کے بعد صدر رجب طیب ایردوان نے کہا ہے کہ "ہم اپنی معیشت کے مضبوط اور کمزور پہلوؤں سے اچھی طرح آشنا ہیں۔ ہم مضبوط پہلوؤں کو جماتے ہوئے، اپنی کمزوریوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ضروری اقدامات اٹھائیں گے۔ ترکی وباء کے بعد کی دنیا میں ایک مضبوط، طاقتور اور اہم عالمی کردار کی حیثیت سے داخل ہونے کے لیے پرعزم ہے۔”
صدر رجب طیب ایردوان نے صدارتی کابینہ کے اجلاس کے بعد ایوانِ صدر میں پریس کانفرنس کا انعقاد کیا۔
"ہم نے کبھی کسی کے حقوق غصب نہیں کیے، نہ ہی کسی کو اپنے حق پر قبضہ جمانے دیں گے”
صدر ایردوان نے کہا کہ "اپنے ملک کے خلاف امریکا اور یورپ سے پابندیوں کی صدائیں سننا افسوسناک ہے۔ البتہ ترکی یورپی یونین سے پابندیوں کا نہیں بلکہ مکمل رکنیت کے حصول کا وعدہ پورا کرنے کی توقع رکھتا ہے، کہ جو سالہا سال سے رکی ہوئی ہے۔ اسی طرح ہم اپنے نیٹو اتحادی امریکا سے بھی پابندیوں کی نہیں بلکہ خطے میں مذموم مقاصد رکھنے والی دہشت گرد تنظیموں اور طاقتوں کے خلاف جنگ میں مدد کی توقع رکھتے ہیں۔”
صدر ایردوان نے زور دیا کہ "ہم اپنے کسی پڑوسی یا کسی ریاست کے ساتھ کوئی کشیدگی یا تنازع نہیں چاہتے۔ ہم اپنے ساتھ خطے اور دنیا کے لیے امن، ترقی اور سکون کے لیے کام کر رہے ہیں۔ البتہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ بحیثیت ملک و قوم ہم اپنے حقوق، قانون اور سالمیت کی خلاف ورزی پر بھی خاموش بیٹھے رہیں گے۔ ہم نے کبھی کسی کے حقوق غصب نہیں کیے، نہ ہی کسی کو اپنے حق پر قبضہ جمانے دیں گے۔”
"ہمارا دنیا بھر میں پرچم آزادی، انصاف اور قانون کی نمائندگی کرتا ہے”
صدر ایردوان نے مزید کہا کہ "ہم لیبیا سے لے کر مشرقی بحیرۂ روم اور شام سے لے کر قفقاز تک مختلف جغرافیوں میں کثير الجہتی کام کر رہے ہیں۔ ہماری جدوجہد اپنے مفادات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ اپنے ان لاکھوں بھائیوں اور بہنوں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے کہ جن کی نظریں اور دل ہمارے ملک کے ساتھ ہیں۔ ہم دنیا بھر میں کہیں بھی ہونے والی ناانصافی، لاقانونیت اور ظلم کے خلاف اپنی آواز بلند کر کے عدل و انصاف قائم کرنے کے لیے کام کرتے رہیں۔ بالکل اپنی جنگِ آزادی کی طرح کہ جس نے مظلوموں کو تحریک دی، ہماری آزادی کے لیے جنگ نے مظلوم و مقہور طبقے کو امید کی کرن دکھائی۔ ہمارا سرخ پرچمِ ستارہ و ہلال غزہ سے اراکان، اور بلقان سے قاراباخ تک آزادی، انصاف و قانون کی جدوجہد کا نمائندہ ہے۔”
"ترکی اور آذربائیجان خوشی و غم کے ساتھی ہیں”
صدر ایردوان نے کہا کہ "میرا دورۂ آذربائیجان، جو میں نے اپنے بھائی الہام علیف کی دعوت پر کیا، اس سلسلے میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔ آزادلیق چوک پر ہونے والے جشن فتح میں ہم نے ایک مرتبہ پھر مرحوم حیدر علیف کے "ایک قوم، دو ریاست” پیغام کو عملی روپ میں دیکھا۔ ہم نے سڑکوں پر، گاڑیوں میں، عمارتوں پر ترکی اور آذربائیجان کے پرچم لہرانے والے اپنے آذربائیجانی بھائیوں اور بہنوں کے جذبات کو دیکھا۔ ہم نے ان 2,783 آذربائیجانی فوجیوں اور 100 شہریوں کو یاد کیا کہ جو مادرِ وطن کی حفاظت کے لیے شہید ہوئے۔ ہم نے ایک مرتبہ پھر پوری دنیا کو دکھایا کہ ترکی اور آذربائیجانی خوشی اور غم دونوں کے ساتھی ہیں۔”
"ہمارا ہدف ترکی کو اس مقام تک پہنچانا ہے جس کا وہ حقدار ہے”
صدر ایردوان نے کہا کہ "ہمارا ہدف ترکی کو وباء کی وجہ سے عالمی، سیاسی و معاشی تنظیمِ نو کے تیز ہو جانے والے عمل میں ترکی کو اس کا جائز مقام دلانا ہے۔ پیداوار، تجارت اور مالیات کے مسائل کو اس وباء کے دوران بہتر انداز میں سمجھا گیا ہے۔ دنیا اب معیشت میں پیداوار اور تجارت کی متوازن تقسیم کی خواہاں ہے۔ ترکی ان سرفہرست ممالک میں شامل ہے کہ جو امتیازی حیثیت رکھے ہوئے ہیں۔ ہم نے محض موجودہ صورت حال پر نظر رکھتے ہوئے محض اپنی معیشت کو ہی نہیں سنبھالا، بلکہ ہماری توجہ آئندہ کے امکانات پر بھی ہے۔”
"ترکی کی معیشت مختلف منظرناموں کے لیے تیار ہے”
صدر ایردوان نے زور دیا کہ "جس عالمی صورت حال کا بھی سامنا ہو، ترکی کی معیشت کئی منظرناموں کے لیے تیار ہے، ہر قسم کی مشکلات اور ترقی کے مواقع کے لیے۔”
صدر نے کہا کہ "ہم اپنی معیشت کے مضبوط اور کمزور پہلوؤں سے اچھی طرح آشنا ہیں۔ ہم مضبوط پہلوؤں کو جماتے ہوئے، اپنی کمزوریوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ضروری اقدامات اٹھائیں گے۔ ترکی وباء کے بعد کی دنیا میں ایک مضبوط، طاقتور اور اہم عالمی کردار کی حیثیت سے داخل ہونے کے لیے پرعزم ہے۔”
انہوں نے کہا کہ "تیسری سہ ماہی میں ہماری پالیسیوں کی وجہ سے ترکی نے 6.7 فیصد کی نمو ظاہر کی ہے۔”
"ہماری پالیسیوں کا ہدف وباء کے بعد کی دنیا میں ترکی کو ایک فاتح بنانا ہے۔ ہماری پیداوار کا تنوع، لاجسٹکس کی صلاحیتیں، مضبوط سپلائی چَین، رعایتیں اور متحرک افرادی قوت کے ساتھ ہم اس سطح پر ہیں کہ جہاں ترکی میں سرمایہ کاری سب کو خوش کرے گی۔”