کیا ترکی دوبارہ ایک قوت بننے کے قریب ہے؟
سرد جنگ کے دوران عالمی منظرنامہ میں ایک دو قطبی نظام سامنے آیا تھا جس میں ممالک اپنے اقدامات کو قابل قبول بنانے کی کوشش کرتے تھے۔ تاہم سرد جنگ کے بعد اس یک قطبی نظام کو بالائے طاق رکھتے ہوئے امریکہ نے بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے افغانستان اور عراق پر حملہ کر کے اپنا تسلط قائم کر لیا۔ امریکہ نے خود کو نئے ورلڈ آرڈر سرخیل بنا لیا نتیجتاً عالمی اداروں اور عالمی قوانین کے فوائد چھوٹے ممالک کم ہونا شروع ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ جیسا عالمی ادارہ بھی امریکہ کے لیے ایک آلہ بن گیا جس کی وجہ سے وہ عالمی مسائل کے حل میں ناکام ہو گیا اور اپنا بین الاقوامی وقار اور تشخص بھی کھو بیٹھا۔
افغانستان اور عراق پر قبضوں کے بعد، مشرق وسطیٰ جنگوں، خانہ جنگیوں، مہاجرین کے مسائل، شہری آبادیوں کے قتل عام اور معاشی بحرانوں کے ساتھ ساتھ سیاسی عدم استحکام میں لڑھکتا چلا گیا۔ لیکن اس میں انتشار اور بربادی کے سوا خود امریکہ کے لیے کوئی کامیابی نہیں تھی، وہ تباہ شدہ ممالک میں اپنی مرضی کے مطابق نتائج حاصل نہ کر پایا جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر اس کا نیو ورلڈ آرڈر خاک ہو گیا۔ لیکن یک قطبی نظام کے خاتمے کے ساتھ ہی ہمہ قطب نظام سامنے آیا جس میں چین نے بطور معاشی قوت اور روس نے بطور عسکری قوت کے عالمی سٹیج میں شامل ہو گئے۔ اس ہمہ قطبی نظام میں ترکی بطور ایک علاقائی قوت کے سامنے آیا ہے۔
اسلام اور عثمانی:
سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے مسلمانوں کی تاریخ میں دو ٹرننگ پوائنٹس کا ذکر کیا ہے: اسلام کا پھیلاؤ اور سلطنت عثمانیہ کا ظہور۔ اس تناظر میں ترکی کا رجب طیب ایردوان کی قیادت میں بین الاقوامی نظام میں بڑھتا ہوا کردار، سلطنت عثمانیہ سے ملتا جلتا ہے اس معنی میں کہ مغرب کے ہاتھ سے بین الاقوامی نظام کا مرکزی کردار چھوٹ رہا ہے۔ سیاسی اور معاشی پریشانیوں کے باوجود، جمہوریہ ترکی ان تمام علاقائی تنازعات میں فتح کا محور بنا ہے جس جس تنازعہ میں یہ شامل ہوا۔
امریکی سنیئر ماہر سیاسیات فرانسس فوکیوما نے اپنے حالیہ مضمون میں شام، لیبیا اور ناگورنو کاراباخ میں ترک ڈرون ٹیکنالوجی کی مدد سے جنگ میں کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے ترکی کی کامیابیوں کی تصدیق کی ہے۔ یہ بیان کرنے کے بعد کہ ترک ڈرون کس طرح جدید جنگ کی نوعیت تبدیل کر رہے ہیں، فوکومایا نے استدلال دیا: "ان ڈرونز نے سن 2020ء میں ترکی کے عروج کو علاقائی طاقت کے طور پر فروغ دینے کے لئے بہت مدد کی ہے۔ اب ترکی نے تین اہم تنازعات کے نتائج کو فیصلہ کن شکل دی ہے، اور مزید عالمی مسائل میں اپنے کردار کا اعادہ کیا ہے”۔
بلاشبہ ترکی ایک تاریخی موڑ سے گزر رہا ہے۔ اگر وہ اپنے موجود معاشی اور سیاسی مسائل سے کامیابی سے گزر کیا تو مستقبل میں ترکی اپنے ماضی کا مقام دوبارہ حاصل کر لے گا جیسا کہ صدر رجب طیب ایردوان نے حکمراں انصاف اور ترقی پارٹی (اے کے پارٹی) کی مرکزی جلسہ میں اعلان کیا ہے کہ اس نئے دور میں ترکی کو ایک عظیم ملک بنانے کی منزل ہی مقصود ہے۔