ہم نے مشرقی بحیرۂ روم میں تناؤ کا نہیں بلکہ ہمیشہ امن و انصاف کو چنا، صدر ایردوان
صدر رجب طیب ایردوان نے مشرقی بحیرۂ روم ورکشاپ کو دیے گئے اپنے وڈیو پیغام میں کہا ہے کہ "ترکی نے مشرقی بحیرۂ روم میں کبھی تناؤ کا انتخاب نہیں کیا بلکہ ہمیشہ امن، تعاون، شفافیت اور انصاف کے قیام کو چنا ہے۔ اور انہیں پانے کا طریقہ باہمی احترام کی بنیاد پر مذاکرات میں پنہاں ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ ہم مشرقی بحیرۂ روم کے مسئلے کو ایک دوسرے سے علیحدہ ہو کر نہیں بلکہ تمام علاقائی کرداروں کو ایک میز پر لا کر حل کر سکتے ہیں۔”
صدر رجب طیب ایردوان نے انٹرنیشنل یونیورسٹیز کونسل اور انطالیہ میں واقع ترکی کی آق دینز یونیورسٹی کی جانب سے منعقدہ مشرقی بحیرۂ روم ورکشاپ کے لیے ایک وڈیو پیغام بھیجا۔
"ہم اس پیشرفت کو قریب سے دیکھ رہے ہیں”
صدر نے کہا کہ "کئی ممالک مشرقی بحیرۂ روم میں ہونے والی پیشرفت کو قریب سے دیکھ رہے ہیں اور کسی نہ کسی طرح اس میں شامل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں، چاہے ان کا ساحل اس سے ملتا ہو یا نہ ملتا ہو۔ توانائی کے حوالے سے یورپ، افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے تمام تنازعات کا گڑھ یہی مشرقی بحیرۂ روم ہے۔ متعدد سائنسی تحقیق کے مطابق یہاں 3.5 سے 10 ٹریلین مکعب میٹرز تک قدرتی گیس موجود ہے۔ اندازہ ہے کہ یہ خطہ 1.5 سے 3.5 ارب بیرلز تیل کے ذخائر بھی رکھتا ہے۔ تو چاہے کوئی معاشی طور پر کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو یا کہیں بھی موجود ہو، اس خطے کے وسائل اور صلاحیتوں کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ بالخصوص ترکی کہ جو بحیرۂ روم کے ساتھ طویل ترین ساحل رکھتا ہے، وہ یہاں ہونے والی پیشرفت پر محض ایک تماش بین نہیں بن سکتا۔ اس سلسلے میں ہم اپنے اور ترک قبرص میں اپنے بھائیوں اور بہنوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے ہونے والی پیشرفت کو قریب سے دیکھ رہے ہیں۔”
"ہم نے اپنے حقوق پر ڈاکا ڈالنے کی سوچ رکھنے والوں کے خلاف مضبوط رویہ اپنایا ہے”
اس امر پر زور دیتے ہوئے کہ ترکی کسی بھی ایسے منصوبے یا نقشے کو قبول نہیں کرے گا جو اسے محض انطالیہ کے ساحلوں تک محدود کر دے، صدر ایردوان نے کہا کہ "ہم پہلے ہی اپنے ہم منصبوں کو آگاہ کر چکے ہیں کہ ہم کسی کی دھمکی یا بلیک میلنگ میں نہیں آئیں گے اور توسیع پسندی کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہم کسی کا حق غصب نہیں کرنا چاہتے۔ محض اپنے حقوق پر ڈاکا ڈالنے کی خواہش رکھنے والے قزاقوں جیسی سوچ کے خلاف مضبوط رویہ دکھایا ہے۔”
پچھلے چند مہینوں میں جو پیشرفت ہوئی ہے وہ مشرقی بحیرۂ روم کے مسئلے کے حوالے سے ترکی کی سوچ کو ظاہر کرتی ہے، صدر نے زور دیتے ہوئے کہا کہ "ترکی نے مشرقی بحیرۂ روم میں کبھی تناؤ کا انتخاب نہیں کیا بلکہ ہمیشہ امن، تعاون، شفافیت اور انصاف کے قیام کو چنا ہے۔ اور انہیں پانے کا طریقہ باہمی احترام کی بنیاد پر مذاکرات میں پنہاں ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ ہم مشرقی بحیرۂ روم کے مسئلے کو ایک دوسرے سے علیحدہ ہو کر نہیں بلکہ تمام علاقائی کرداروں کو ایک میز پر لا کر حل کر سکتے ہیں۔”
بحیرۂ روم میں مسئلے کے پائیدار حل کے لیے ایک موقع سفارت کاری کو دینے پر زور دیتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا کہ "کیونکہ سفارت کاری اور مذاکرات ہی وہ مختصر اور محفوظ ترین راستہ ہیں کہ جو ہمیں ایک یکساں مقام تک لائیں گے۔ ترکی نے یونان اور یونانی قبرص کی انتظامیہ کی تمام تر اشتعال انگیزیوں کے باوجود 2003ء سے ملائمت اور متانت کا راستہ اختیار کر رکھا ہے۔ ہم آج بھی اسی مصالحت آمیز حل پر جمے ہوئے ہیں۔”
"اتحاد کا بہانہ بنا کر ترک قبرص اور ترکی کا مزید استحصال نہیں ہونا چاہیے”
یورپی یونین کو اپنے موجودہ اسٹریٹجک اندھے پن کو چھوڑنے کی ضرورت ہے، اس پر زور دیتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا کہ یونانی قبرص اور یونان کو مشرقی بحیرۂ روم میں یورپی یونین کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
صدر ایردوان نے خبردار کیا "اتحاد کا بہانہ بنا کر ترک قبرص اور ترکی کا مزید استحصال نہیں ہونا چاہیے۔ ہم اب بھی مشرقی بحیرۂ روم کے ساحلوں پر واقع تمام ریاستوں اور ترک قبرص کو ملا کر ایک کانفرنس کی تجویز رکھتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ہمارے ہم منصب ہمارے بڑھائے گئے ہاتھ کا مثبت جواب دیں گے۔ میں بحیرۂ روم کے کنارے واقع تمام پڑوسیوں، خاص طور پر یونان، کو کہتا ہوں کہ وہ اس مسئلے کو ایک لاحاصل کھیل سمجھنا بند کرے۔ میرا ماننا ہے کہ ہم سب کے حقوق کے تحفظ کرنے والے یکساں بہتر فارمولا ڈھونڈ سکتے ہیں اگر ہم عقلِ سلیم، خلوص اور حکمت کا استعمال کریں۔”