ترکی ایف-35 پروگرام کو ترجیح دیتا ہے، صدارتی ترجمان
ترکی کے صدارتی ترجمان نے کہا ہے کہ ملک کی اوّلین ترجیح ایف-35 لڑاکا طیارہ پروگرام میں موجود رہنا ہے اور اس پروگرام سے اخراج ایک غیر منصفانہ اور غیر قانونی عمل ہے۔
ایک فائن آرٹس یونیورسٹی کی افتتاحی تقریب کے بعد صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے ابراہیم قالن نے حالیہ جی-20 اجلاس میں صدر رجب طیب ایردوان اور امریکی ہم منصب جو بائیڈن کے درمیان ملاقات میں کیے گئے فیصلوں پر بات کی۔
انہوں نے کہا کہ دونوں رہنماؤں نے ترکی-امریکا تعلقات کو درست سمت میں گامزن رکھنے پر اتفاق کیا۔
انہوں نے بائیڈن کو یاد دلایا کہ ترکی نے ایف-35 پروگرام کے لیے 1.4 ارب ڈالرز کی ادائیگی کی تھی اور کہا کہ امریکی کانگریس میں اس وقت ایک بل ایجنڈے پر موجود ہے جس میں بھارت اور آسٹریلیا کو استثنا دیا جائے گا، جو ایس-400 حاصل کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ایف-35 پروگرام کا مسئلہ حل نہیں ہوا تو "ہمارے پاس ضائع کرنے کے لیے وقت نہیں ہے۔”
انہوں نے کہا کہ "ہم اس کے بدلے میں ایف-16 لینے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ امریکی انتظامیہ نے اب تک مناسب رویّہ دکھایا ہے۔”
ابراہیم قالن نے کہا کہ "اگر معاملہ روس سے بھاری ہتھیار خریدنے والے ممالک پر پابندی کا ہے تو آخر ان ملکوں کے لیے استثنا کیوں؟ اگر ایسا کوئی اصول نہیں تو پھر ترکی پر پابندیاں کیوں لگائی گئي ہیں؟”
انہوں نے زور دیا کہ ہماری ترجیح دفاعی صنعت میں ترکی کی ضروریات کو مناسب ترین انداز میں پورا کرنا ہے۔ ترکی ان شعبوں میں متبادل رکھتا ہے اور ملک اپنے ڈرونز پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور دفاعی صنعت میں اہم اقدامات اٹھا رہا ہے۔
امریکہ کو ہمارا پیسہ واپس کرنا ہو گا یا ہم کسی اور طرح لیں گے، صدر ایردوان
صدارتی ترجمان نے اس امید کا اظہار کیا کہ امریکی کانگریس، متعلقہ سینیٹر، کمیٹی اور کمیشن کے اراکین ترکی کی اہمیت کو جلد از جلد سمجھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ "اگر چار سے پانچ جغرافیائی و سیاسی مسائل کی فہرست مرتب کی جائے کہ جو عالمی سیاست کو اس وقت متاثر کر رہے ہیں، مثلاً افغانستان، مشرقی بحیرۂ روم، شام، قفقاز اور لیبیا، تو یہ سب ترکی سے منسلک ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ ترکی کے بغیر ان معاملات پر کچھ کرنا ممکن نہیں۔ اس تناظر میں مجھے امید ہے کہ کانگریس کے اراکین، پالیسی ساز اور نائبین ترکی کی اہمیت کو سمجھیں گے۔ ہم اس حوالے سے بات چیت جاری رکھیں گے۔
ترکی لڑاکا طیاروں کے لیے 1.4 ارب ڈالرز ادا کر چکا تھا لیکن 2019ء میں امریکا نے ترکی کو اس پروگرام سے نکال دیا کیونکہ اس نے روسی ساختہ ایس-400 ڈیفنس سسٹم خرید لیا تھا کیونکہ امریکا سے پیٹریاٹ میزائل خریدنے کی کوششیں ناکام ہو گئی تھیں۔
امریکا کا دعویٰ ہے کہ ایس-400 ایک سکیورٹی رِسک ہے، لیکن ترکی کہتا ہے کہ ایس-400 نیٹو اور اس کے دفاع کے لیے کوئی خطرہ نہیں کیونکہ اسے نیٹو کے سسٹمز کے ساتھ منسلک نہیں کیا جائے گا۔ اس حوالے سے ترکی بارہا ایک کمیشن کے قیام کی تجویز پیش کر چکا ہے۔