کابل ایئرپورٹ کے آپریشنز بحال کرنے کے لیے ترکی اور قطر کی کوششیں
افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا اور طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد جو سب سے اہم سوال اٹھ رہا ہے وہ کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے تحفظ اور اسے چلانے کا ہے۔ یہ ایئرپورٹ نہ صرف افغانستان کو بیرونی دنیا سے منسلک کرنے کے لیے اہم ہے بلکہ اس بحرانی صورت حال میں امدادی سرگرمیوں کی بحالی کے لیے بھی ضروری ہے۔ اب ترکی اور قطر دو ایسے ممالک ہیں جو کابل ایئرپورٹ کے آپریشنز دوبارہ شروع کرنے کی کوششوں میں پیش پیش ہیں۔
حال ہی میں طالبان ترجمان نے بھی تصدیق کی تھی کہ یہ دونوں ممالک ہوائی اڈے کی سرگرمیاں بحال کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ذبیح اللہ مجاہد نے ایک اطالوی اخبار کو انٹرویو میں کہا تھا کہ ایئرپورٹ اس وقت مکمل طور پر طالبان کے کنٹرول میں ہے لیکن اسے بہت نقصان پنہچا ہے۔ اگلے تین دن میں اس کی صفائی ستھرائی کا کام مکمل ہو جائے گا اور جلد ہی تعمیرِ نو کا بھی آغاز ہو جائے گا۔ مجھے امید ہے کہ ستمبر میں ہی یہ ایک مرتبہ پھر آپریشنل ہو جائے گا۔
ترک وزیر خارجہ مولود چاؤش اوغلو نے بھی کہا ہے کہ ترکی کابل ایئرپورٹ کو دوبارہ کھولنے کے منصوبے کا جائزہ لے رہا ہے۔
کابل کے لیے چارٹر پروازوں کو دوبارہ شروع کرنے کے موضوع پر مولود ان کا کہنا تھا کہ ہوائی اڈے کے اندر اور اس کے گرد امن و تحفظ کی شرط لازمی ہے۔ ولندیزی ہم منصب کے ساتھ انقرہ میں منعقدہ مشترکہ کانفرنس میں انہوں نے تصدیق کی کہ طالبان اور دیگر ممالک، جن کا نام ظاہر نہیں کیا گیا، نے کابل ایئرپورٹ کو محفوظ کرنے اور چلانے کے لیے ترکی سے تعاون کی درخواست کی ہے۔ تحفظ اس طرح ہونا چاہیے کہ سب کو اس پر یقین ہو۔
کابل ائیرپورٹ سیکیورٹی: طالبان نے ترکی پر اعتماد برقرار نہ رکھ کر 30 ملین کا نقصان اٹھایا
مولو چاؤش اوغلو نے کہا کہ کابل ایئرپورٹ کو دو حصوں میں کھولا جا سکتا ہے، پہلے فوجی پروازوں کے لیے اور بعد ازاں کمرشل پروازوں کے لیے۔
ترکی نے امریکی انخلا اور طالبان کی آمد سے پہلے تقریباً چھ سال کابل ایئرپورٹ کے انتظامات چلائے تھے۔
چاؤش اوغلو نے ترکی نے انخلا کے اس عمل میں اخلاقی اور انسانی ذمہ داریوں سے بڑھ کر اپنا کردار ادا کیا ہے۔ ترکی کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ افغانستان میں جلد از جلد امن و امان اور استحکام ہو جائے کیونکہ یہاں بحران کا گمبھیر صورت اختیار کرنا نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کو متاثر کرے گا۔ اس لیے تمام اقدامات مل جل کر اٹھانے ہوں گے اور یہ محض ترکی یا قطر کی ذمہ داری نہیں ہیں۔
کابل ایئرپورٹ مشن کے لیے ترکی سب سے قابلِ بھروسا ملک ہے، گلبدین حکمتیار
قطر نے بھی کہا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ مل کر جلد از جلد کابل ایئرپورٹ کھولنے کے لیے کام کر رہا ہے، جس کی بندش نے ایک بڑا تزویراتی اور انسانی چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔
بدھ کو ایک خلیجی ملک کی پرواز افغان دارالحکومت پہنچی تھی جو امریکی انخلا کے بعد ہوائی اڈے پر آنے والا پہلا جہاز تھا۔ پھر جمعرات کو دوحہ سے ایک پرواز کابل پہنچی، جس میں ذرائع کے مطابق ہوائی اڈے کے تحفظ اور اسے چلانے کے حوالے سے کام کرنے والے ماہرین سوار تھے۔