ترکی، قطر اور عرب امارات ممکنہ طور پر مل کر کابل ایئرپورٹ چلائیں گے
ترکی، قطر اور متحدہ عرب امارات ممکنہ طور پر افغانستان کے دارالحکومت کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے معاملات سنبھالیں گے ۔
سال 2021ء کے جائزے کے حوالے سے ایک پریس کانفرنس کے دوران ایک سوال کے جواب میں ترک وزیر خارجہ مولود چاؤش اوغلو نے کہا کہ "طالبان کے اقتدار حاصل کرنے سے پہلے ہم نیٹو کے پرچم تلے کابل ایئرپورٹ کے فوجی حصے کی نگرانی کر رہے تھے۔ سویلین حصہ عرب امارات کا ایک ادارہ چلا رہا تھا۔”
انہوں نے اشارہ دیا کہ ادارے نے وہاں تقریباً ڈیڑھ سال کام کیا۔ طالبان انتظامیہ نے کہا تھا کہ وہ مختلف ممالک سے تجاویز طلب کرے گا۔
مولود چاؤش اوغلو انقرہ اور دوحہ کی جانب سے ایئرپورٹ کو چلانے کے لیے کی جانے والی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "ہم نے قطر کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا۔” حال ہی میں ترکی کے ایک ٹیکنیکل وفد نے قطری حکام سے رابطے کے لیے دوحہ کا دورہ کیا تھا۔
"دوحہ میں ہمارے دوست مسلسل رابطے میں کہ ہوائی اڈے کے معاملات چلانے کے لیے (قطر اور ترکی کا) کوئی مشترکہ ادارہ کام کرے تو کیا ہو سکتا ہے۔”
البتہ انہوں نے زور دیا کہ قطر اور ترکی کا اب تک طالبان کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے۔
متحدہ عرب امارات کے حقیقی حکمران ابو ظبی کے ولی عہد شیخ محمد بن زاید النہیان نے گزشتہ ماہ انقرہ کا سرکاری دورہ کیا تھا۔
چاؤش اوغلو نے کہا کہ ملاقات کے موقع پر اس معاملے پر بھی مختصراً بات ہوئی تھی۔ "انہوں نے کہا تھا کہ ہم تینوں ممالک مل کر بھی اس ہوائی اڈے کو چلا سکتے ہیں۔”
اس مشترکہ آپریشن کے معاملے سے کسی فریق نے اب تک کوئی ٹھوس پیشکش نہیں کی ہے، جو اشارہ کر رہا ہے کہ دوحہ جیسے مذاکرات ان دونوں ممالک کے درمیان نہیں ہوئی۔
چاؤش اوغلو نے پیر کو کہا تھا کہ ترکی دوحہ اور کابل کے مابین مذاکرات کے بعد قطر کے ساتھ مل کر افغانستان میں پانچ ہوائی اڈے سنبھال سکتا ہے۔
ترکی افغان دارالحکومت کو بین الاقوامی سفر کے لیے کھولنے کی خاطر قطر کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ البتہ کمرشل پروازوں کے آغاز کے لیے ہوائی اڈے کی مرمت ناگزیر ہے۔
طالبان کی جانب سے اقتدار سنبھالنے کے بعد ترکی نے کابل ایئرپورٹ کو چلانے کے لیے تکنیکی و سکیورٹی مدد کی پیشکش کی تھی۔ ہوائی اڈے کو کھولنا افغانستان کو بیرونی دنیا سے جوڑنے اور امداد کی تقسیم بلا روک ٹوک جاری رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے۔
ترک حکومت نے افغانستان میں نئے حقائق کو سمجھتے ہوئے نئی حکمت عملی اختیار کی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ تمام متعلقہ رہنماؤں کے ساتھ رابطوں کے دروازے کھلے رکھے گا۔
نیٹو رکن ترکی نے مغربی ممالک کے انخلا کے باوجود افغانستان میں اپنا سفارت خانہ کھلا رکھا ہے۔ لیکن ساتھ ہی اس کا مطالبہ ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ اسی صورت میں کام کرے گا جب وہ ایک جامع حکومت بنائیں گے۔