ترکی آبادی کے لحاظ سے دنیا کا 19 واں سب سے بڑا ملک، تازہ اعداد و شمار جاری
اگلے اتوار کو دنیا بھر میں ‘آبادی کا عالمی دن’ منایا جائے گا اور اس سے چند روز پہلے ترک ادارۂ شماریات (TurkStat) نے 2020ء کے لیے اپنے اعداد و شمار جاری کر دیے ہیں۔ جس کے مطابق 8.33 کروڑ کی آبادی کے ساتھ ترکی دنیا کے 235 ممالک اور خطوں میں 19 ویں نمبر پر آ گیا ہے۔ یعنی دنیا کی کُل آبادی کا 1.1 فیصد ترکی میں ہے۔ اب واضح ہو گیا ہے کہ ترکی مشرق میں واقع اپنے پڑوسی ایران سے تقریباً 6 لاکھ نفوس پیچھے ہے۔
اس سال آبادی کا عالمی دن کا موقع تولیدی صحت (reproductive health) ہے۔ ادارۂ شماریات کا کہنا ہے کہ 15 سے 19 سال کی عمر کی خواتین کے ہاں بچوں کی پیدائش کی شرح فی 1,000 پر 15 ہو گئی ہے جو دو دہائیوں پہلے 49 تھی۔ اس کے علاوہ بچے کی پیدائش پر خواتین کی اوسط عمر گزشتہ سال 29 رہی، جو 2001ء میں 26.7 تھی۔
کرونا وائرس کی وبا سے تولیدی صحت کی خدمات تک رسائی کو دنیا بھر میں نقصان پہنچا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارۂ برائے آبادی (UNFPA) کا کہنا ہے کہ وبا نے تقریباً سبھی کی صحت کو خطرات سے دوچار کیا ہے، خاص طور پر پسماندہ طبقات کو۔ ادارے نے خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کی تولیدی صحت اور خاندانی منصوبہ بندی کے ذرائع تک عدم رسائی کی جانب اشارہ کیا ہے۔
ترک ادارۂ شماریات کے مطابق گو کہ بچوں کی پیدائش کی شرح میں کچھ کمی آئی ہے، لیکن ملک میں اب بھی 11 لاکھ بچے سالانہ پیدا ہوتے ہیں۔
تولیدی صحت کا ایک اور اہم اشاریہ مجموعی شرحِ پیدائش ہے یعنی بچوں کی وہ اوسط تعداد جو عورت 15 سے 40 سال کی عمر کے دوران پیدا کر سکتی ہے۔ یہ شرح 2001ء میں 2.38 تھی اور گزشتہ سال 1.76 بچہ رہ گئی ہے۔ فی خاتون سب سے زیادہ بچوں کی شرح صوبہ شانلی عرفہ میں رہی کہ جہاں یہ 3.71 بچے ہے۔ اس کے بعد جنوب مشرقی صوبہ شیرناک 3.22 کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ مشرقی علاقے کے دو مزید صوبے آغری اور سیرت بھی اسی فہرست میں شامل ہیں۔ بحیرۂ اسود کے کنارے واقع صوبے قارابوق اور اس کا پڑوسی زونگل داق میں سب سے کم شرح 1.29 پائی جاتی ہے۔ عمر کے لحاظ سے دیکھیں تو بچے پیدا کرنے کی سب سے زیادہ شرح 25 سے 29 سال کی عمر کی خواتین میں ہے۔
اعداد و شمار سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ 2020ء میں شادی کی اوسط عمر بڑھتے ہوئے 25.1 سال ہو گئی ہے۔ پانچ سال پہلے یہ عمر 24.4 سال تھی۔ یہ تولیدی صحت کا ایک اہم اشاریہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ تاخیر سے شادی کی وجہ سے عورت کی بجے پیدا کرنے کی عمر کم رہ جاتی ہے اور یوں آبادی میں کمی کا امکان ہوتا ہے۔
گو کہ ترکی کی آبادی میں 2007ء کے بعد سے کمی آ رہی ہے لیکن 15 سے 24 سال کے نوجوان اب بھی ترکی کی آبادی کا 15.4 فیصد ہیں۔ ملک کو یورپ میں ‘نوجوان ترین قوم’ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ جبکہ دوسری جانب یہ 167 ممالک میں زیادہ بزرگ آبادی رکھنے والے ممالک میں بھی 66 ویں نمبر پر ہے۔ 65 اور اس سے زیادہ سال کے افراد کی تعداد گزشتہ پانچ سال میں 22.5 فیصد بڑھ کر 79 لاکھ تک جا پہنچی ہے۔
ماہرین عمر رسیدہ افراد کی تعداد بڑھنے کے مختلف عوامل بیان کرتے ہیں مثلاً صحت کا بہتر نظام جس کی وجہ سے ملک میں اوسط عمر کی شرح بڑھی ہے۔