ایف-35 معاملہ، ترکی اور امریکا میں ڈیڈلاک ختم ہو سکتا ہے

0 499

انقرہ اور واشنگٹن ایف-35 لڑاکا طیاروں کے معاملے پر جمود کے شکار مذاکرات دوبارہ شروع کر سکتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ایف-35 معاملہ ترکی کی جانب سے حال ہی میں ایف-16 لڑاکا طیاروں کا باقاعدہ مطالبہ کرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر سامنے آ گیا ہے اور امید ہے کہ دونوں ممالک کے صدور کے مابین رواں ماہ ہونے والی متوقع ملاقات میں گفتگو کا بنیادی موضوع ہوگا۔

صدر رجب طیب ایردوان اور امریکی صدر جو بائیڈن اطالوی دارالحکومت روم میں طے شدہ جی-20 اجلاس کے موقع پر مل سکتے ہیں۔

امریکا نے روس سے ایس-400 ایئر ڈیفنس سسٹم خریدنے کی وجہ سے ترکی کو ایف-35 لڑاکا طیاروں کے پروگرام سے نکال دیا تھا کہ جس کے لیے ترکی 1.4 ارب ڈالرز کی ادائیگی پہلے ہی کر چکا تھا۔ چند ہفتے قبل ترکی نے امریکا سے 40 نئے ایف-16 بلاک 70 طیارے خریدنے اور موجودہ ایف-16 جہازوں کو جدید تر بنانے کے لیے 80 کٹس کی باضابطہ درخواست کی تھی۔

ترک صدارتی ترجمان نے رواں ہفتے ایف-35 پروگرام کے لیے ترکی کی جانب سے ادا کردہ 1.4 ارب ڈالرز کی جانب توجہ دلاتے ہوئے کہا تھا کہ ایف-16 طیارے خریدنے کی یہ درخواست واشنگٹن کے ساتھ حالیہ مسائل کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ ایک انٹرویو میں ترجمان ابراہیم قالن نے کہا تھا کہ "جو رقم ہم نے ادا کر چکے ہیں، اس کے بدلے میں نئے ایف-16 طیاروں کی خریداری اور موجودہ بیڑے کو جدید تر بنانے کا عمل ایک متبادل سمجھا جا سکتا ہے۔ اگر مستقبلِ قریب میں ایف-35 معاملہ حل ہوتا نظر نہیں آتا تو پھر واحد فطری حل اس کا متبادل دیکھنا ہے۔”

انہوں نے کہا کہ "اس معاملے کی صورت گری ہو رہی ہے اور ہم نے اپنی ضرورت کے مطابق حتمی فیصلہ کیا ہے۔ بلاشبہ ایف-35 ایک اہم ٹیکنالوجی ہے اور ہمارا اوّلین انتخاب ایف-35 خریدنا ہی ہوگا کہ جس کے ہم حقدار ہیں۔ لیکن پابندیوں کی وجہ سے ہم اپنے لڑاکا طیاروں کے بیڑے کو طاقتور بنانے سے روگردانی بھی نہیں کر سکتے۔ اگر امریکا کے ساتھ تعلقات میں بحرانی کیفیت ختم ہو جاتی ہے تو ترکی ایک مرتبہ پھر اس پروگرام کا حصہ بنے گا اور ہم اپنے ایف-35 حاصل کریں گے۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا اور مسئلہ مزید کچھ عرصے کے لیے جمود کا شکار رہتا ہے تو ہم متبادل کے لیے اپنی تلاش جاری رکھیں گے۔”

صدارتی ترجمان کے اس تبصرے کی بنیاد پر ذرائع کا کہنا ہے کہ ترکی کی جانب سے ایف-16 کے بیڑے کو توسیع دینا اور موجودہ بیڑے کو جدید تر بنانا ترکی کی ادا شدہ رقم کے بدلے میں ایک متبادل سمجھا جا سکتا ہے۔

انقرہ ادائیگی کے باوجود امریکا کو نہ دیے گئے ایف-35 طیاروں پر اصرار کرتا ہے، لیکن چھ عدد یہ طیارے نہ ملنے کی صورت میں دیگر تمام امکانات کو بھی مد نظر رکھتا ہے مثلاً مجوزہ ایف-16 طیاروں کے معاہدے سے 1.4 ارب ڈالرز منہا کرنے کا مطالبہ۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ترکی نے ایف-35 پروگرام کے حوالے سے سفارتی اور عسکری مذاکرات کا دروازہ بند نہیں کیا اور روم میں دونوں رہنماؤں کی ملاقات کے بعد اس حوالے سے کوئی پیشرفت ہو سکتی ہے۔

لیکن بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے کسی مثبت طرز عمل دکھانے کے باوجود امریکی کانگریس کے رویے پر سوالیہ نشان ہیں، جو ہتھیاروں کی خریداری کے معاملات کو ترکی پر پابندیوں اور دباؤ کے لیے استعمال کرتی ہے۔

ترکی کے پاس کُل 245 ایف-16 طیارے ہیں جبکہ اس کے لڑاکا ڈرونز تیزی سے فضائی جنگ کا منظرنامہ بدل رہے ہیں۔ اس حوالے سے ترکی کے ڈرونز نے دنیا بھر میں بڑا نام کمایا ہے۔ اس کے ‘آقنجی’ ڈرونز جنہیں حال ہی میں ترک فضائیہ میں شامل کیا گیا ہے، 40 ہزار فٹ کی بلندی پر 24 گھنٹوں تک محوِ پرواز رہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ترکی ایسی خصوصیات رکھنے والے ڈرونز بنانے والے دنیا کے محض چار ممالک میں شامل ہے۔

تبصرے
Loading...
%d bloggers like this: