ترکی میں فوجی بغاوتوں کی تاریخ، ریٹائرڈ ایڈمرلز کے اعلامیہ کے کیا مطالب بتاتی ہے؟

0 3,064

حال ہی میں سخت گیر ملٹری مواد شائع کرنے والی ایک ویب سائٹ پر 104 ریٹائرڈ ایڈمرلز کا دستخط شدہ اعلامیہ ترکی کی سوشیالوجی میں محض ایک خط نہیں ہے۔ 3 اپریل کو ترکی میں ریٹائرڈ ایڈمرلز کے ایک گروپ نے بعض تازہ واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اپنے اختلافات کو واضع کرنے کے لیے یہ متنازعہ اعلامیہ تیار کیا۔ صورتحال کا جائزہ لینے سے قبل میں اپنے قارئین کو یاد دلاتا چلوں کہ ترکی فوجی بغاوتوں کی ایک طویل تاریخ رکھتا ہے، ماضی قریب میں بھی ایسے ہی ریٹائرڈ جرنیلوں نے خونی بغاوت کرنے کا منصوبہ بنایا جو ناکام ہوا اور بالآخر ان کی سزائے موت کی وجہ بن گیا۔

اس لیے اگر ترک فوج کے اعلی رینک رکھنے والے 104 ریٹائرڈ ایڈمرلز اکٹھے ہوتے ہیں تو ساری قوم اپنے ماضی میں کھو جاتی ہے اور ایسے اعلامیے کو محض اظہار رائے کی آزادی کے طور پر نہیں دیکھتی ہے۔ یہ اعلامیہ ایک منتخب حکومت کو دی گئی دھمکی کے طور پر دیکھا گیا ہے۔

مونٹریکس اور استنبول:

یہ جنریل اس مونٹریکس معاہدہ کی اہمیت واضع کرنا چاہ رہے ہیں جو پہلی جنگ عظیم کے بعد استنبول کی دو آبناؤں بوسفورس اور داردانیلس میں امن کے قیام کے لیے کیا گیا تھا۔ یہ ایک اہم معاہدہ ہے اور اس وقت ترک حکومت کے زیر نظر ایسا کوئی ایجنڈا نہیں ہے جس میں اس سے دستبرداری کا سوچا جا رہا ہو یا اسے تبدیل کرنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہو۔ تاہم ان جرنیلوں نے بحیرہ اسود اور مرمرا سمندر کے درمیان صدر ایردوان کی طرف سے ایک نئی آبی گزر گاہ "نہرِ استنبول” کی تعمیر کے منصوبوں پر تنقید کی اور مونٹریکس معاہدہ پر پڑنے والے اثرات پر حکومت کو متنبہ کیا۔

درحقیقت نہر استنبول کے اس منصوبے کا کسی بھی طرح مونٹریکس معاہدہ سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد بحیرہ اسود سے مرمرا کے درمیان بڑے جہازوں کی نقل و حرکت کے لیے ایک نیا راستہ مہیا کرنا ہے جس سے نتیجتاً ترکی کی معیشت کو بھی فائدہ ہو گا۔ کیونکہ اس منصوبے کی بدولت مزید جہاز اس راہ داری سے گزر سکیں گے اور ترکی ٹیرف اور سمندری ٹریفک کو اپنی مرضی کے مطابق کنٹرول کر سکے گا۔

دوسری طرف مونٹریکس معاہدہ کا یہاں کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے جو مذکورہ دو خطوں کی ٹریفک کو کنٹرول کرتا ہے لیکن ایڈمرلز چاہتے ہیں کہ ایردوان حکومت نئی نہر بنانے کا منصوبہ ترک کر دے۔ ایک آزاد معاشرے میں ہر کوئی اپنی سیاسی رائے کا اظہار کر سکتا ہے لیکن فوج سے منسلک رہنے والے ممبران کی اتنی بڑی تعداد کا کسی ایک موقف پر جمع ہونا اور اعلامیہ جاری کرنا، صرف اظہار رائے نہیں ہے بلکہ عوامی نمائندوں کو دھمکی سمجھی جا رہی ہے۔

سیکولر مخالف افواہیں:

اس اعلامیے میں ایک دینی اجلاس میں مذہبی لباس پہنے ایک ایڈمرل کی تصویر کا بھی حوالہ دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ ترک مین سیکولر مخالف رجحان کا ثبوت ہے۔ تاہم جیسے ہی یہ بات سامنے آئی تو وزارت دفاع کی جانب سے اس تصویر کی چھان بین کی گئی جس کی صدر رجب طیب ایردوان نے سخت مخالفت بھی کی۔ ماضی میں بھی فوج بغاوت اور سیاسی مداخلت کو قانونی حیثیت دینے کے لیے سیکولر ازم مخالف افواہوں کو ابھارتے ہوئے ہمیشہ ایک دلیل کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

1990ء میں سابق وزیراعظم نجم الدین اربکانؒ کو ایسے ہی استدلال پر پابند سلاسل کرتے ہوئے ان کی رفاہ پارٹی پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ اسی طرح کا ایک دعویٰ خود ترک صدر رجب طیب ایردوان کی پارٹی کے خلاف 2007ء میں دائر کیا گیا تھا کہ پارٹی مذہبی رجحان رکھنے والے رہنماؤں پر مشتمل ہے۔ دائیں بازو کی سیاسی پارٹیوں اور رہنماؤں کو دبانے کے لیے فوجی جنتا کی جانب سے ہمیشہ ہی اس جواز اور دلیل کو استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

آق پارٹی گذشتہ 20 سال سے ترکی میں اقتدار پر براجمان ہے اس طویل عرصہ میں کہیں نہیں دیکھا گیا کہ اس نے سیکولر ازم سے پیچھے ہٹنے کی بات کی ہو۔ اس کے برعکس کئی ماہرین تعلیم کہتے پائے گئے ہیں کہ ایردوان کے دور اقتدار میں ترک معاشرہ زیادہ سیکولر ہو گیا ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اسی دلیل کو آق پارٹی کی حکومت کے خلاف دلیل بنایا جا رہا ہے۔ اسی لیے اس اعلامیہ کے آتے ہی حکومتی اور عوامی حلقوں میں تشویش پھیل گئی۔

آق پارٹی کے دور حکومت میں ترکی نے ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ اب فوجی بغاوتوں اور اعلامیوں کا دور نہیں رہا، اب اسے ماضی کا ایک ناگوار حصہ ہی رہنا چاہیے۔ موجودہ ترک معاشرہ فوجی افسروں کی سیاست میں مزید مداخلت برداشت نہیں کرے گا۔ عجیب بات ہے کہ اکیسوی صدی میں بھی پرانے طریقے، پرانے دلائل اور پرانی زبان استعمال کی گئی۔ "ہماری قابل فخر قوم! ہمیں تشویش ہے۔۔۔۔” سے شروع ہونے والا اعلامیہ کبھی بھی اختلاف کا اظہاریہ نہیں ہے، ماضی میں بھی نہیں تھا۔

ایڈمرلز کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ٹی وی پر بیٹھ کر اختلاف کریں یا کالم کے ذریعے حکومتی پالیسیوں پر تنقید کریں۔ درحقیقت موجودہ سیاسی صورتحال میں جب ترکی شام سے لیبیا اور آزربائیجان تک مختلف محاذوں پر موجود ہے ان کی آراء بہت اہم ہیں اور انہیں خوش آمدید کہا گیا ہے۔ مثال کے طور پر "نیلا وطن” ڈاکٹرائن جو کچھ ایڈمرلز کی جانب سے سامنے آیا تھا، حکومت نے اس ڈاکٹرائن کو سراہا اور حکومت حامی چینلز پر ان ایڈمرلز کو ٹاک شوز میں لیا گیا تاکہ وہ اسے مزید کھول کر قوم کے سامنے رکھ سکیں۔

تبصرے
Loading...
%d bloggers like this: