ترکی کا کابل ایئرپورٹ مشن، مواقع اور خطرات

جہاں پاکستان خطے میں ترکی کی فوجی موجودگی کی حمایت کرے گا وہیں بھارت، روس، ایران اور سعودی عرب مخالفت کریں گے، تجزیہ کار رحیم اللہ فرزام

0 2,379

ترکی جنگ زدہ افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے نکلنے کے بعد دارالحکومت کابل کے حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی حفاظت اور چلانے کی ذمہ داری سنبھالے گا۔ ماہرین کے مطابق اس میں جہاں ترکی کے مواقع ہیں، وہیں خطرات بھی درپیش ہیں۔

رحیم اللہ فرزام ترک دارالحکومت انقرہ میں واقع سینٹر فار ایرانین اسٹڈیز کے خارجہ پالیسی ماہر ہیں، جن کا کہنا ہے کہ امریکا کے ساتھ کیے گئے ابتدائی معاہدے کے تحت یہ نتیجہ نکلا ہے کہ ترکی کی ذمہ داری ہوائی اڈے کے تحفظ کو یقینی بنانے تک محدود ہوگی اور انقرہ کسی فوجی آپریشن میں حصہ نہیں لے گا جیسا کہ ابھی تک کبھی نہیں لیا۔

انہوں نے کہا کہ "جیسا کہ ہم پہلے اشارہ کر چکے ہیں کہ کابل ایئرپورٹ غالباً افغانستان کا بیرونی دنیا سے رابطے کا واحد راستہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ہوائی اڈہ ملک میں مختلف سفارتی مشنز کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل ہے تاکہ وہ امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔ ہوائی اڈے کے آپریشنز بین الاقوامی امدادی اداروں کے لیے بھی اہمیت رکھتے ہیں تاکہ وہ ملک میں انسانی امداد کی فراہمی کا تسلسل قائم رکھ سکیں۔ نیٹو کا واحد مسلم ملک ہونا اور افغان حکومت اور عوام کے ساتھ قریبی تعلقات ترکی کے لیے اس کام کے لیے اہم عناصر ہیں۔”

انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان میں ترکی کی موجودگی معیشت سے لے کر تحفظ تک کئی شعبوں میں ملک کے تعاون کو مزید بہتر بنانے کو ممکن بنائے گی۔

انہوں نے کہا کہ "گو یہ ایسا کہا جا رہا ہے کہ امریکا ترکی کے متبادل کی حیثیت سے ایک نجی ادارے کو ایئرپورٹ کی حفاظۃ منتقل کرنا چاہا رہا ہے لیکن ماضی کے تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ طریقہ حقائق پر مبنی نہیں ہے۔ اس لیے ترکی انقرہ-واشنگٹن اور انقرہ-نیٹو تعلقات دونوں کے لیے بہت اہمیت رکھنے والے اس کام کو انجام دے رہا ہے۔ مشن کہ ترکی افغانستان میں ذمہ داری انجام دے گا نہ صرف امریکا کے ساتھ تعاون کا ایک شعبہ کھولے گا بلکہ اس سے نیٹو میں انقرہ کی حیثیت بھی مضبوط ہوگی۔”

فرزام نے زور دیا کہ ترکی کی افغانستان میں موجودگی طویل میعاد میں خطے میں انقرہ کے اثر و رسوخ میں اضافہ کرے گی۔

گو کہ ترکی کے لیے دستیاب کوئی مواقع کے علاوہ افغانستان کا جغرافیہ کئی چیلنجز کا حامل ہوگا۔

"جب خطے کے کئی ممالک سالوں سے افغان مسئلے میں شمال ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنے مفادات کے لحاظ سے مختلف حکمت عملی رکھتا ہے، افغانستان میں امن و استحکام کے لیے ایک اتفاق رائے پر پہنچنا ابھی باقی ہے۔ سالہا سال سے افغانستان کے معاملات میں شریک خطے کے کئی ممالک کی حکمت عملیاں ایک دوسرے سے بڑی حد تک مختلف ہیں۔ اس لیے افغانستان میں ترکی کی موجودگی پر بھی مخالفانہ رائے رکھنے والے بھی اتنے ہی ہیں، جتنے کے خاموش حلقے ہیں۔”

فرزام کا کہنا ہے کہ جہاں پاکستان خطے میں ترکی کی فوجی موجودگی کی حمایت کرے گا وہیں بھارت، روس، ایران اور سعودی عرب مخالفت کریں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ "ترکی کو افغانستان میں جو چیلنجز درپیش ہوں گے وہ محض علاقائی کرداروں کے رویّے تک ہی محدود نہیں ہوں گے۔ گو کہ ترکی کئی مقامی عوامل کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتا ہے، جس میں کابل انتظامیہ بھی شامل ہے، لیکن طالبان افغانستان میں انقرہ کے ممکنہ مشن کے خلاف ہیں۔”

گزشتہ ماہ طالبان کے قطر دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا تھا کہ "ترکی گزشتہ 20 سالوں سے نیٹو کا حصہ تھا، اس لیے انہیں بھی اس معاہدے کے تحت افغانستان سے انخلا کرنا چاہیے جس پر ہم نے 29 فروری 2020ء کو امریکا کے ساتھ دستخط کیے تھے۔”

طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد تو اس معاملے کوا یک قدم مزید آگے لے گئے اور کہا کہ اگر ترکی افغانستان میں رہا تو اس کے ساتھ بھی امریکا جیسا ہی سلوک کیا جائے گا۔ ایرانی ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "ترکی ایک برادر مسلم ملک ہے۔ لیکن کیونکہ وہ نیٹو کا رکن ہے، اس لیے اگر وہ افغانستان میں رہتا ہے تو ہمارے لیے امریکا سے کسی طرح مختلف نہیں ہوگا۔”

ترکی کے نئے مشن کے حوالے سے طالبان کا بنیادی خدشہ یہ ہے کہ انقرہ نیٹو کا رکن ہے۔ طالبان اپنی 20 سالہ جدوجہد کو "غیر ملکی افواج کے خلاف جہاد” قرار دیتے ہیں۔ یہی نعرہ طالبان کو اپنے پیروکار بڑھانے اور مسلح جدوجہد کو جائز قرار دینے کے لیے لگایا جاتا ہے۔ دوحہ معاہدے کے باوجود کہ جس میں تمام غیر ملکی افواج سے ملک چھوڑ دینے کا مطالبہ کیا گیا، طالبان کے لیے اب بھی اس معاہدے کی پابندی کرنا باقی ہے۔ اس لیے طالبان کو خدشہ ہے کہ ترکی کی نیٹو رکن کی حیثیت سے موجودگی یہ تاثر دے گی کہ نیٹو نے ملک نہیں چھوڑا۔

فرزام نے کہا کہ "حالیہ چند دنوں میں اپنے تیزی سے پھیلاؤ کے باوجود طالبان اب بھی افغانستان کے 34 شہروں میں سے کسی کے مرکز میں داخل نہیں ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی کو فی الحال کابل میں اپنے مشن کے دوران طالبان کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ البتہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی خطرہ درپیش نہیں ہے۔ یہ ایک بڑا سوال ہے کہ ترکی بغیر فوجی گشت کے کابل ایئرپورٹ کی حفاظت کس طرح کرے گا کہ جو شہر کے مرکز میں واقع ہے۔ فوجی گشت کے دوران طالبان غیر ملکی افواج پر ریموٹ کنٹرول بموں اور سڑک کنارے کھڑی بم سے لدی گاڑیوں سے حملہ کر سکتے ہیں۔”

ترکی، جس کے افغانستان میں موجود دستے ہمیشہ سے غیر فوجی اراکین پر مشتمل رہے ہیں، نے نیٹو کے اخراج کے بعد حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی حفاظت کی پیشکش کر چکا ہے۔

وہ مشن کی لاجسٹکس اور مالی مدد کے لیے امریکا کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے، کیونکہ یہ سوال بدستور موجود ہے کہ اہم ٹرانسپورٹ روٹس اور ہوائی اڈے کی سکیورٹی کو کیسے ممکن بنایا جائے گا کہ جو دارالحکومت کابل کا اہم راستہ ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن کے اس اعلان کے بعد کہ 11 ستمبر تک تمام امریکی افواج جنگ زدہ ملک سے نکل جائیں گی، اور نیٹو ممالک بھی اس کی پیروی کریں گے، افغانستان میں صورتحال کشیدہ ہے۔ بائیڈن اور ایردوان نے برسلز میں حالیہ نیٹو ملاقات میں اس مسئلے پر بات کی ہے۔

صدر ایردوان نے اجلاس کے بعد کہا تھا کہ ترکی ایئرپورٹ کے تحفظ اور اسے چلانے کے لیے امریکا کی "سفارتی، لاجسٹک اور مالی مدد” چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترکی چاہتا ہے کہ پاکستان اور ہنگری بھی اس مشن میں شامل ہوں۔

وزیر دفاع خلوصی آقار کے مطابق ہوائی اڈے کے تحفظ اور اسے چلانے کے لیے ترک مشن کے حوالے سے فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے اور اس حوالے سے ترکی اور امریکا کے مابین رابطہ رہے گا۔

انقرہ گزشتہ چھ سالوں سے نیٹو مشن کے تح کابل ایئرپورٹ کی فوجی اور لاجسٹک آپریشنز چلا رہا ہے۔

نیٹو مشن کے تحت ترکی کے افغانستان میں 500 سے زیادہ فوجی ہیں کہ جو افغان فوج کو تربیت دے رہے ہیں۔ ان میں سے چند فوجی ہوائی اڈے پر اب بھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

ہوائی اڈے کی حفاظت پر معاہدہ 2,500 سے 3,500 امریکی فوجیوں اور 76,000 اتحادی نیٹو افواج کے حتمی انخلا کی تکمیل کے لیے بہت ضروری ہے۔

تبصرے
Loading...
%d bloggers like this: