طاقت کے عالمی کھیل میں ترکی کا بڑھتا ہوا کردار [تجزیہ]
21 صدی میں طاقت کے عالمی کھیل میں توازن ٹوٹ گیا ہے اور اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے کا عالمی تنازعات اور علاقائی سطح پر امن کی کوششوں میں کردار تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ قوموں میں آمدنی میں عدم مساوات بھی بہت زیادہ بڑھ رہی ہے اور مغربی ممالک اپنے فطری اور سماجی مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہوئے ہیں۔ ایسے منظرنامہ میں ساؤتھ کوریا، جاپان اور ترکی ایسے ممالک کے طور پر سامنے آئے ہیں جنہوں نے عالمی وباء کا ایک منظم اور سائنسی طریقے سے بہترین مقابلہ کیا ہے۔
سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ناٹو کا اتحاد اپنی اہمیت کھو چکا ہے۔ اسی طرح گذشتہ صدی میں بننے والے روایتی اتحاد بھی تقریباً بکھر چکے ہیں۔ ریاست متحدہ ہائے امریکہ اور یورپی یونین کے مفادات میں ٹکراؤ واقع ہو چکا ہے۔ روس بطور ایک ایٹمی طاقت اور چین بطور ایک معاشی طاقت، عالمی اسٹیج پر داخل ہو چکے ہیں۔ یورپ کے خطے میں اسلاموفوبیا اور نسل پرستی ایک وباء کی طرح سماج کو نگل رہی ہے۔
بحیرہ روم اور مشرق وسطیٰ کا خطہ عالمی طاقتوں کی جنگ کا مرکزی میدان بن چکا ہے۔ توانائی کا توازن جیسے ہی مغرب سے مشرق کی طرف لوٹ رہا ہے، اُن ممالک کی جیو پولیٹکل اہمیت اپنا سکہ منوا رہی ہے، جو طاقت کے اس مرکزی میدان جنگ پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ جوبائیڈن انتظامیہ کے آتے ہی امریکہ اپنی توجہ ایشائی بحر الکاہل کے خطے پر بڑھا رہا ہے، دو مرکزی طاقتیں ترکی اور روس، بحیرہ روم، مشرقی وسطیٰ اور قفقار میں ہاتھ ملاتے ہوئے ایک بھرپور چیلنج دے رہی ہیں۔
تاہم ترکی اور روس باہمی احترام کے ساتھ کئی مسائل پر ایک دوسرے سے اختلاف بھی کرتے نظر آتے ہیں اور بعض اوقات ایک دوسرے کے سامنے بھی آ جاتے ہیں لیکن تاہمی تعاون کے ساتھ علاقائی بحرانوں کا win, win صورتحال کے ساتھ حل بھی نکل رہا ہے۔ دونوں ممالک اپنی ریاستی جڑوں پر انحصار کرتی نظر آتے ہیں۔ اگرچہ روس، ریاست عثمانیہ کے مقابلے میں ایک نومولود ریاست لگتی ہے البتہ ترکی ریاست عثمانیہ کے کمزور ہونے کے بعد ایک جدید ریاست میں بدل چکا ہے۔
گذشتہ دہائی میں ترکی نے کئی عالمی اور علاقائی بحرانوں پر کامیابی کے ساتھ قابو پایا ہے۔ جب اوباما انتظامیہ نے شام میں ترکی کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے وہاں پر موجود کرد دہشتگرد تنظیموں وائے پی جی سے ہاتھ ملایا، انہیں ٹنوں کے حساب سے اسلحہ اور فوجی تعاون فراہم کیا تو ترکی نے امریکہ سے اپنے راستے الگ کرنا شروع کر دئیے۔
اسی عرصہ میں ترکی ان کرد دہشتگردوں اور داعش کے خونخوار حملوں کا نشانہ بھی بنتا رہا ہے اور پھر امریکہ میں مقیم فتح اللہ گولن نے ریاستی اداروں میں موجود اپنے پیروکاروں کے ذریعے ریاست پر قبضہ کرنے کی ناکام خونی کوشش بھی کی۔ ان چیلنجز کا کامیابی سے مقابلہ کرتے ہوئے ترکی نے اپنی قومی سلامتی کو یقینی بنایا اور تیزی سے اپنے ریاستی ڈھانچے کو بدلتے ہوئے عالمی سطح پر اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنا شروع کر دی۔
ترکی کا عروج، براعظم یورپ کی طاقتوں کے خاتمے سے منسلک ہے۔ جیسا کہ امریکی ماہر معاشیات ایمانوئل والرسٹائین نے تجزیہ کیا ہے کہ یورپی طاقتیں مالی، انتظامی، میڈیا، ٹیکنالوجی اور خام مال کی دستیابی کے معاملے میں بڑے مسائل کا شکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ نے عمومی ڈھلوان پر جانے والے یورپی خطے سے خود کو جدا کرنے کیلئے یورپی یونین سے باہر آ گیا۔
اسی اثناء میں اپنے متحرک معاشرتی ڈھانچے، معاشی اور سیاسی بحرانوں سے نبٹنے کی قوت، مضبوط عسکری طاقت، عثمانی طرز کی موثر سفارتی روایت اور بھرپور ثقافتی ورثہ کی بدولت ترکی کے اثرات بڑھ رہے ہیں۔ بہرحال طاقت کے عالمی کرداروں کو ترکی کی نئی عالمی حیثیت اور وقار کو قبول کرنے میں مزید کچھ وقت لگے گا۔
اس ضمن میں روس کی طرف سے، ترکی سے روا رکھنے جانے والا احترام پر مبنی رویہ اور ترکی کی علاقائی سطح پر اہمیت کو تسلیم کرنا، امریکہ اور اسرائیل کے لیے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔ 14 صدی عیسوی میں عرب دانشور ابن خلدون نے لکھا تھا، کسی بھی قوم کا ماضی اس کے مستقبل سے، اِس سے زیادہ مشابہت رکھتا ہے جتنا پانی کا ایک قطرہ، دوسرے قطرے سے مشابہ ہوتا ہے۔ علامہ محمد اقبالؒ حیات ہوتے تو وہ اشعار جو انہوں نے چینیوں کے لیے لکھے تھے، ترکوں کے لیے بھی رقم کرتے۔
گیا دَورِ سرمایہ داری گیا
تماشا دِکھا کر مداری گیا
گراں خواب چِینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے اُبلنے لگے
البتہ جان لیجئے کہ قدسیوں میں وہ شیر پھر بیدار اور ہوشیار ہو چکا ہے جو نظام عالم پر توحید کا سکہ چلائے گا۔