شام میں ترکی کی جدوجہد مختلف راستہ اختیار کرے گی، صدر ایردوان

0 275

صدر رجب طیب ایردوان نے کہا ہے کہ شام میں ترکی کی جدوجہد مختلف راستہ اختیار کرے گی۔

استنبول میں نماز جمعہ کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر نے دہشت گرد PKK کی شامی شاخ YPG کی جانب سے حالیہ حملوں پر بات کی، جس نے شمالی شام اور ترک سرحدی قصبوں میں ترک فوج کو ہدف بنایا ہے۔ انہوں نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے شام میں YPG کی پشت پناہی کی ایک مرتبہ پھر مذمت کی۔

ان سے قبل وزیر دفاع خلوصی آقار بھی کہہ چکے ہیں کہ ترکی شمالی شام میں YPG کے حملوں کے خلاف اپنے حقوق و مفادات کے تحفظ کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائے گا۔ جبکہ وزیر خارجہ مولود چاؤش اوغلو نے کہا تھا کہ امریکا اور روس شمالی شام میں YPG کی جانب سے کیے گئے ان حملوں کے ذمہ دار ہیں کیونکہ ان دو ممالک نے اپنے وعدے پورے نہیں کیے۔

شمالی شام کے شہر اعزاز میں YPG کے حملوں کے نتیجے میں دو ترک پولیس افسران شہید جبکہ دو زخمی ہوئے۔ YPG/PKK دہشت گردوں نے ایک گائیڈڈ میزائل سے بکتر بند گاڑی پر حملہ کیا تھا۔ یہ حملہ تل رفعت کے علاقے سے کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ جرابلس سے پھینکے گئے گولوں سے ترکی کے جنوبی صوبہ غازی عین تاب کے ضلع قرقامیش میں دو مختلف مقامات پر دھماکے ہوئے۔ ایک تیسرا گولا جرابلس ہی میں گر گیا۔ حکام کے مطابق یہ گولے YPG کے علاقے سے داغے گئے تھے۔

اعزاز اور جرابلس 2016ء میں ترکی کے شام میں پہلے آپریشن کے وقت سے ترکی کے حامی گروہوں کے پاس ہیں۔ آپریشن کا مقصد داعش اور YPG کے دہشت گردوں کو ملکی سرحدوں سے دُور بھگانا تھا۔ انقرہ نے شام میں YPG کے خلاف دو دیگر سرحد پار آپریشنز کیے ہیں۔

PKK ترکی کے علاوہ امریکا اور یورپی یونین کی جانب سے بھی ایک تسلیم شدہ دہشت گرد تنظیم ہے اور واشنگٹن کی جانب سے اس کی شامی شاخ کی پشت پناہی کرنا ترک-امریکا تعلقات میں کشیدگی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ امریکا نے داعش کے خلاف جنگ میں YPG کے ساتھ اشتراک کیا لیکن ترکی نے شمالی شام میں اِس دہشت گرد گروپ کی موجودگی اور اس کی پشت پناہی کا سخت مخالفت ہے۔ ترکی اس گروہ کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے کیونکہ یہ دہشت گردی پھیلانے، مقامی لوگوں کے گھر تباہ کرنے اور انہیں بے دخل کرنے کے لیے کارروائیاں کرتا ہے۔

امریکا نے اپنے نیٹو اتحادی ترکی کے خدشات کے باوجود داعش کے خلاف لڑائی کے نام پر YPG کو فوجی تربیت اور بھاری فوجی امداد فراہم کی۔ ایک دہشت گرد گروہ سے نمٹنے کے لیے کوئی ملک دوسرے دہشت گرد کی مدد نہیں کر سکتا، اس اصول کی بنیاد پر ترکی نے اپنے انسداد دہشت گردی آپریشن کا آغاز کیا، جس کے دوران اس نے خطے سے دہشت گردوں کا بڑے پیمانے پر خاتمہ کیا۔

اپنی گفتگو کے دوران صدر ایردوان نے افغانستان میں طالبان انتظامیہ کے ساتھ حالیہ مذاکرات کے موضوع پر بھی بات کی۔ صدر نے کہا کہ انہوں نے افغانستان میں انسانی امداد کی فراہمی اور نئے سیاسی عمل کے حوالے سے کہا کہ "ہم افغان عوام کی ہر ممکن مدد کریں گے۔ ہم کابل ایئرپورٹ کے معاملات چلا رہے تھے۔ معاہدے ہونے کی صورت میں ہم قطر اور افغانستان کے ساتھ مل کر بھی ایسے اقدامات اٹھا سکتے ہیں۔”

افغانستان کی عبوری طالبان حکومت کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی وفد نے سینیئر ترک حکام سے ملنے کے لیے ترکی کا دورہ کیا تھا۔ یہ ترکی اور افغانستان کی نئی انتظامیہ کے مابین پہلا اعلیٰ سطحی رابطہ تھا۔

وزیر خارجہ مولود چاؤش اوغلو نے کہا کہ طالبان کو تسلیم کرنا اور ان کے ساتھ بات چیت کرنا دو بالکل الگ چیزیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ترکی نے ایک جامع حکومت کے قیام پر زور دیا ہے اور کابل ایئرپورٹ کے تحفظ کے حوالے سے اپنی توقعات بھی پیش کی ہیں۔

ترک صدر نے جی-20 ورچوئل اجلاس میں بھی کہا تھا کہ عالمی برادری کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کا راستہ کھلا رکھنا چاہیے تاکہ وہ مرحلہ وار ایک جامع حکومت کی طرف جائیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ ترکی پہلے ہی 36 لاکھ شامی مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے، وہ افغان مہاجروں کا مزید بوجھ برداشت نہیں کر سکتا اور یورپی ممالک کو خبردار کیا کہ مہاجرین کی نئی لہروں سے وہ بھی متاثر ہوں گے۔

تبصرے
Loading...
%d bloggers like this: