سیزفائر معاہدے کی نگرانی کے لیے ترک افواج کی آذربائیجان آمد

0 687

نگورنو-قاراباخ کے علاقے میں مشترکہ مانیٹرنگ سینٹر میں کام کرنے کے لیے ترکی کے فوجی اہلکار آذربائیجان پہنچ گئے ہیں۔

ترک وزیر دفاع خلوصی آقار نے سال کے اختتام پر ہونے والے ورچوئل اجلاس میں کہا کہ "ہمارا عملہ آذربائیجان گیا ہے اور وہیں قیام کرے گا۔ جوائنٹ سینٹر کی تعمیر اور اس کے کام شروع کرنے کے بعد ہمارے ایک جرنیل اور 35 فوجی افسران وہاں اپنی ذمہ داریاں فوراً سنبھالیں گے۔”

ترکی کے چیف آف جنرل اسٹاف جنرل یشار گولر، دیگر فوجی کمانڈر اور سینئر حکام اس اجلاس میں شریک تھے۔ دفاعی و سلامتی کے امور پر بات کرتے ہوئے آقار نے کہا کہ آذربائیجان نے تقریباً 30 سال کے بعد اپنے علاقوں کو آرمینیا کے قبضے سے آزاد کروایا ہے۔

آذربائیجان اور آرمینیا نے 10 نومبر کو روس کی مدد سے لڑائی کے خاتمے اور ایک جامع حل کے لیے کام کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ ترکی اور روس نے بعد ازاں مفاہمت کی ایک یادداشت پر بھی دستخط کیے تھے تاکہ امن معاہدے کی نگرانی کے لیے ایک جوائنٹ سینٹر بنایا جائے۔ یہ آرمینیا کے قبضے سے چھڑائے گئے آذربائیجانی علاقوں میں بنایا جائے گا۔

سیزفائر معاہدے کے تحت تقریباً 2،000 روسی امن فوج کے اہلکار نگورنو-قاراباخ میں تعینات کیے گئے ہیں اور وہ کم از کم پانچ سال تک اس علاقے میں رہیں گے۔

ترک پارلیمنٹ نے پچھلے مہینے آذربائیجان میں ترک امن فوجیوں کی تقرری کی منظوری دی تھی۔

قبل ازیں، دسمبر میں آذربائیجان کے صدر الہام علیف نے کہا تھا کہ یہ سینٹر اغدام کے علاقے میں بنایا جائے گا۔ آقار نے زور دیا کہ ترک مسلح افواج خطے میں بارودی سرنگوں اور دیگر دھماکا خیز مواد کی صفائی کا کام کر رہی ہیں۔ بارودی سرنگوں کا پتہ چلانے اور انہیں ناکارہ بنانے کے لیے 135 ماہرین پر مشتمل دو اسپیشل ٹیمیں آرمینیا کے قبضے سے آزاد کرائے گئے علاقوں میں آذربائیجانی دستوں کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ ترک دستے آذربائیجانی فوجیوں کو اس حوالے سے تربیت بھی دے رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ "ہم نے آذربائیجانی بھائیوں اور بہنوں کو مدد دینے کے لیے بھرپور کوششیں کی ہیں اور اس برحق اور باوقار جدوجہد میں ان کے مددگار رہے ہیں اور آئندہ بھی ایسا کرتے رہیں گے۔”

ایک علیحدہ بیان میں آذربائیجان کی وزارتِ دفاع نے کہا ہے کہ ترک اور آذربائیجانی اہلکاروں نے اغدام کے علاقے میں بارودی سرنگوں کا پتہ لگانے اور انہیں تلف کرنے کا کام کیا ہے۔

دونوں سابق سوویت ریاستوں آذربائیجان اور آرمینیا کے مابین تعلقات 1991ء میں قیام کے بعد سے ہی کشیدہ ہیں جب آرمینیا کی فوج نے نگورنو-قاراباخ کے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا، جو عالمی طور پر تسلیم شدہ آذربائیجانی علاقہ ہے۔

حالیہ لڑائی کا آغاز 27 ستمبر کو ہوا جب آرمینیا کی فوج نے آذربائیجان کی افواج اور شہری آبادیوں پر حملے شروع کر دیے اور بعد ازاں سیزفائر معاہدوں کی بھی خلاف ورزی کی۔

44 روزہ لڑائی کے دوران آذربائیجان نے متعدد شہر اور تقریباً 300 آبادیاں اور دیہات آزاد کروائے، جو تقریباً تین دہائیوں سے قبضے میں تھے۔

اس معاہدے کو آذربائیجان کی فتح سمجھا گیا ہے کیونکہ آرمینیا کی افواج ان علاقوں سے نکل رہی ہیں۔

تبصرے
Loading...
%d bloggers like this: