امریکہ اور روس کے مابین ترکی کی متوازن پالیسی اور پاکستان کے لیے سیکھنے کے مواقع

0 2,220

ترکی ایک بڑے عرصے تک اپنی خارجہ پالیسی میں امریکہ کو ترجیح دیتا چلا آ رہا ہے اس کی ایک بڑی وجہ وہ اس کا ناٹو اتحادی ہے اور ناٹو کا ادارہ ترکی کو یورپی ممالک سے جوڑے رکھتا ہے۔ ترکی کی یورپی یونین میں شامل ہونے کی کوششیں، اس کے انفرا اسٹکچر اور نظام کو ٹھیک میں معاون ثابت ہوئی ہیں، آج اگر وہ یورپی یونین میں شامل نہیں بھی ہے تو اپنی معیشت اور عوامی معیار زندگی کے لحاظ سے کئی یورپی ممالک سے بہت ترقی کر چکا ہے۔ اس ترقی اور خوشحالی نے اس کی خارجہ پالیسی میں آزادی کا راستہ کھولا تو وہ اپنے لیے نئے امکانات ڈھونڈ رہا ہے۔ شام اور عراق میں امریکہ کی ناکامی اور ترک دشمن دہشتگرد گروپس سے تعلقات اور تعاون نے ترکی کو مجبور کیا کہ وہ خطے میں امریکہ کے ساتھ لڑھکنے کے بجائے دوسری طاقتوں سے اپنے تعلقات میں بہتری لائے۔

حال ہی امریکہ اور چین کے درمیان پاکستان کی پالیسی سازی میں ترکی کے اس تجربے سے سیکھنے کے کئی مواقع موجود ہیں۔ ترک حکومت اپنی خارجہ پالیسی کو "متوازن” اور "نان زیرو سم گیم” سمجھتی ہے۔ عوامی تحفظ یونٹس (کرد پی وائے ڈی) جو کہ کالعدم پی کے کے کی شامی پرانچ ہے کو امریکا کی طرف سے کھلی امداد دینے کے معاملے پر اختلافات کے باوجود ترکی نے خطے کے کئی مسائل پر اوبامہ انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کیا تھا جبکہ وہ دوسری طرف شامی بحران کے سیاسی حل کے لیے روس اور ایران کے ساتھ ایک سہہ فریقی کٹھ جوڑ کا اہم حصہ ہے۔ جوہری طور پر ترکی ایک متوازن پالیسی کا خواہاں رہا ہے جس میں مشرق اور مغرب، یورپ اور مشرق وسطیٰ، یوریشیا اور افریقہ، اور شمالی اور لاطینی امریکا کے درمیان برابری روا رکھی جاتی ہے۔

ترک صدارتی ترجمان کے مطابق اہم نکتہ یہ امر ہے کہ ترکی خارجہ پالیسی کو زیرو سَم گیم نہیں سمجھتا۔ وہ کہتے ہیں "حقیقت یہ ہے کہ ترکی کا ناٹو ممبر ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ روس اور چین کے ساتھ اچھے تعلقات نہیں رکھ سکتا۔ ترکی ابھی بھی سمجھتا ہے مسلم دنیا کے ساتھ گہرے ثقافتی اور تاریخی گٹھ جوڑ اسے یورپی یونین کا مکمل رکن ملک بننے سے نہیں روکتے۔ ایسی کسی بھی مساوات پر باہمی طور پر کوئی تخصیص نہیں کی گئی۔ اس کے برخلاف اگر ان مساوات کو استعمال کیا جائے تو یہ دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنا سکتی ہیں جس کے ساتھ صدیوں پرانے تعصبات، غلط فہمیاں اور اسلامی دنیا اور یورپ کے درمیان سیاسی دشمنی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی تعلق کسی دوسرے تعلق کی قیمت پر نہ تو پیدا کیا جا سکتا ہے اور نہ اس سے فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے”۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ "ترکی کے لیے اس کی جغرافیائی سیاسی حیثیت، کئی خطوں اور براعظموں کے ساتھ تاریخی تعلقات، دفاعی مفادات اور عالمگیریت کے چیلنجز سے نبٹنے کے لیے بھی ایسی برابری اور متوازن پالیسی ضروری ہے۔ انسانی تلاش کے کسی بھی میدان میں تخفیف پسندی کام نہیں آتی۔ خارجہ پالیسی میں یہ حد درجہ اضافی چیز ہے۔ جبکہ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ ترکی اپنے آپشنز کی ایک محدود سیٹ تک تخفیف کر لے جیسا کہ مغرب یا مشرق وسطیٰ۔ اس زمین پر موجود حقائق کے ساتھ ساتھ ترکی کے سرحدی منظرنامہ اس سے یہ چاہتا ہے بلکہ زور دیتا ہے کہ ترکی کے پاس کثیر آپشنز ہونا ضروری ہیں”۔

اسی پس منظر میں وہ روس کے ساتھ بڑھتے ہوئے سیاسی، سماجی اور دفاعی تعلقات پر کہتے ہیں، "جو بات غور طلب ہے وہ شام میں گزرے ہوئے پچھلے 3 ماہ کی مثبت پیش رفت ہے۔ روس سے پچھلے سال جون سے تعلقات میں بہتری کے بعد ترکی نے روس کے ساتھ تعاون نہ صرف تیزی سے آگے بڑھایا ہے بلکہ روس کے ساتھ شام میں ہونے والی جنگ میں باہمی تعلقات میں بھی بہتری آئی ہے۔ امریکا اور اقوام متحدہ جنیوا معاہدوں کی روشنی میں شام کے اندر موثر جنگ بندی کروانے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں جبکہ ترکی اور روس نے مشرقی حلب میں ناصرف کامیاب جنگ بندی معاہدہ کروایا بلکہ انخلائی معاہدے پر بھی عمل درآمد کروایا۔ ملک گیر جنگ بندی معاہدہ جو کہ 30 دسمبر 2016 کو عمل میں آیا ابھی تک اسد رجیم اور عسکری گروہوں کی طرف سے کی جانے والی خلاف ورزیوں کے باوجود نافذ العمل ہے – نسبتاً یہ اس جنگ سے بہتر ہے جو کہ پچھلے 6 سالوں میں لاکھوں افراد کی جانیں لے گئی۔ اب اسد رجیم اور شامی حزب اختلاف آستانہ میں 23 جنوری کو بات چیت کے لیئے تیار ہیں”۔

ترکی کی متوازن اور نان زیرو سم خارجہ پالیسی نے حال ہی میں کامیابی سے شام میں حالیہ آپریشن کو آگے بڑھایا ہے۔ حالانکہ ترکی کے لیے زیادہ آسان تھا کہ امریکہ کے کھلے عام کرد دہشتگردوں سے تعاون اور ترکی کو دھمکیوں دینے پر اپنے تعلقات کو ملیا میٹ کر کے رکھ دیتا۔ لیکن اس نے اس میں سفارتی کوششوں کے ذریعے اپنے لیے امکانات ڈھونڈنے کی طرف پیش قدمی کی۔ جس کے نتیجے میں ڈونلڈ ٹرمپ کو مجبور کر دیا کہ اپنی فوجوں کو پیچھے ہٹائے اور اس کے بعد دہشتگردوں کو پریشرائز کرنے کے لیے امریکہ سے تین روزہ معاہدہ بھی کر لیا۔ اس سے دہشتگردوں کا مورال کمزور ہوا اور انہوں نے شامی رجیم اور روس کے ساتھ تعلقات بڑھانے کی کوشش شروع کر دی۔ لیکن زیرو سم کی نفی کرتے ہوئے ترک صدر ایردوان نے روس کا دورہ کیا اور روسی صدر پوٹن کے ساتھ پانچ روزہ معاہدہ کرتے ہوئے دہشتگردوں کو دونوں طرف سے گھیر لیا۔ اس میں ایک تینوں ممالک بظاہر کھیلتے اور اپنے اپنے مفاد کے لیے کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن ترکی نے متوازن پالیسی کے ساتھ ان کھیلوں کو بے اثر کرتے ہوئے مفادات حاصل کئے ہیں۔

آج پاکستان بھی ایک طرف چین کے گیم چینجر منصوبے سی پیک اور دوسری طرف امریکہ کے اشاروں پر کام کرنے والے آئی ایم ایف اور ایف اے ایف ٹی کے درمیان پھنسا دکھائی دیتا ہے۔ یہ سوال خود پاکستانی پالیسی ساز اداروں کے لیے بھی مشکل ہے کہ کیا وہ کسی ایک کے بغیر آگے بڑھ سکتا ہے؟ گیم چینجر سی پیک کے باوجود پاکستان ایک معاشی بحران سے گزر رہا ہے اور یہ منصوبہ اس کی بظاہر کوئی مدد نہیں کر پایا ہے لیکن اس کا قطعاً مطلب نہیں کہ پاکستانی معیشت میں سی پیک کی موجودگی اس کے لیے سود مند نہیں بلکہ اس کے لیے ایک چیلنج ہے کہ وہ اس سے کس طرح فوائد حاصل کر سکتا ہے۔ اگر وہ سی پیک کو اپنی دوسری ترجیح پر رکھتے ہوئے امریکہ کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے تو آئی ایم ایف کے چنگل میں وہ مزید دھنستا چلا جائے گا جو ترقی کے بجائے معیشت کی دیکھ بھال میں مدد دیتا ہے۔ پھر ایف اے ایف ٹی کی پابندیوں سے ملکی معیشت کے بحران کا راستہ مزید کھلا ہو سکتا ہے۔

ترکی کے تجربات سے سیکھتے ہوئے پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ نان زیرو سم آپشن کو آن کرے اور اپنی صلاحیتیوں کو ان اہداف پر مرکوز کر دے کہ وہ کیسے سی پیک کو اپنے لیے سود مند بناتے ہوئے اپنی معاشی بحران سے نکلنے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ تعلقات استوار کر سکتا ہے اور ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں جانے سے خود کو روک پاتا ہے۔

تبصرے
Loading...
%d bloggers like this: