امریکی فوج نے افغانستان میں اپنا سب سے بڑا اڈہ خالی کر دیا
اپنے عروج کے وقت بگرام ایئر بیس پر ایک لاکھ سے زیادہ امریکی فوجی موجود تھے
بالآخر امریکی فوج نے افغانستان میں اپنا سب سے بڑا اور اہم ترین اڈہ خالی کر دیا ہے۔
طالبان کے ساتھ کیے گئے ‘دوحہ معاہدے’ کے تحت امریکا رواں سال 11 ستمبر سے پہلے افغانستان سے اپنی افواج نکالے گا اور یوں ملک میں دو دہائیوں سے جاری جنگ کا خاتمہ ہو جائے گا۔
امریکی فوج کے ایک عہدیدار کے مطابق اب تمام امریکی اور نیٹو فوجی اہلکار بگرام ایئر بیس خالی کر چکے ہیں۔
افغانستان میں جنگ کے دوران امریکا کا گڑھ اصل میں یہی بگرام ایئر بیس تھی، جو دارالحکومت کابل سے 60 کلومیٹرز شمال میں واقع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس اڈے کے خالی ہونے کو ملک میں امریکی فوج کی مداخلت کا خاتمہ سمجھا جا رہا ہے۔
اب بگرام ایئر بیس افغان فوج کے حوالے کر دی گئی ہے، جس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ملک میں موجود امریکا کے آخری ڈھائی سے تین ہزار فوجیوں کا انخلا بس مکمل ہونے ہی والا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے شکست کے ساتھ ان کے دور میں طالبان کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر شکوک و شبہات پیدا ہو گئے تھے، لیکن نئے صدر جو بائیڈن نے واضح کر دیا تھا کہ وہ "ہمیشہ کی جنگ” کا خاتمہ کر دیں گے اور اب لگتا ہے کہ امریکا اور نیٹو کے فوجی 4 جولائی تک ہی انخلا مکمل کر لیں گے، یعنی امریکا کے یومِ آزادی تک۔
2012ء میں اپنے عروج کے وقت بگرام ایئر بیس پر ایک لاکھ سے زیادہ امریکی فوجی موجود تھے۔
یہ دوسرا موقع ہے کہ افغانستان حملہ آور کوئی ملک بگرام سے آیا اور یہیں سے جا رہا ہے۔ یہ ایئر فیلڈ سوویت یونین نے 1950ء کی دہائی میں بنائی تھی۔ جب 1979ء میں افغانستان کی کمیونسٹ حکومت کی پشت پناہی کرتے ہوئے ملک میں اپنی افواج داخل کی تھیں تو سوویت افواج نے بگرام ہی کو اپنا مرکزی اڈہ بنایا تھا۔ سوویت یونین 10 سال تک افغان مجاہدین سے لڑتا رہا کہ جنہیں خود اُس وقت کے امریکی صدر رونلڈ ریگن ‘مجاہدینِ آزادی’ کہتے تھے۔ یوں یہ سرد جنگ میں صفِ اول کا معرکہ بن گیا۔
جب 2001ء میں نائن الیون کے بعد امریکا اور نیٹو کی افواج یہاں قدم رکھا تو یہ کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا تھا۔ افغان خانہ جنگی کی وجہ سے اس کی اینٹ سے اینٹ بج چکی تھی لیکن گزشتہ دو دہائیوں کے دوران یہاں امریکا نے بہت سا کام کروایا۔ آج یہاں پر دو بڑے رن وے ہیں، جن میں سے 12 ہزار فٹ طویل نیا رن وے 2006ء میں 96 ملین ڈالرز کی لاگت سے بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ تین بڑے ہینگرز، ایک کنٹرول ٹاور اور کئی عمارات بھی موجود ہیں۔ بیس میں 50 بستروں کا ہسپتال، تین آپریشن تھیٹرز اور ایک جدید دانتوں کا کلینک بھی تھا جبکہ ایک اور حصہ بدنامِ زمانہ بگرام جیل کے لیے بھی تھا۔
امریکا نے ابھی تک واضح نہیں کیا کہ اس کا آخری سپاہی افغانستان کب چھوڑے گا بلکہ کابل کے حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی حفاظت کے بارے میں بھی مذاکرات ابھی جاری ہیں۔ اس وقت ترک اور امریکی فوجی اس ہوائی اڈے کی حفاظت کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں اور جب تک ترک اور افغان حکومت، اور ممکنہ طور پر امریکا، کے درمیان نیا معاہدہ نہیں ہوتا، یہ مشن تو جاری رہے گا۔
اس کے علاوہ امریکا دارالحکومت کابل میں اپنے وسیع و عریض سفارت خانے کے تحفظ کے لیے بھی تقریباً 650 سپاہی رکھے گا۔ ان کی موجودگی افغان حکومت کے ساتھ طے شدہ معاہدے کی بنیاد پر ہوگی۔
امریکی اور نیٹو افواج کا انخلا ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب افغانستان کے کئی اضلاع کو طالبان کی پیش قدمی کا سامنا ہے بلکہ کئی علاقوں پر تو وہ قبضہ بھی جما چکے ہیں۔ گو کہ افغان حکومت نے ابھی تک بگرام ایئر فیلڈ کے خالی ہونے کی تصدیق نہیں کی ہے لیکن طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس کا خیر مقدم کیا ہے۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ "ہم اس انخلا کو ایک مثبت قدم سمجھتے ہیں۔ غیر ملکی افواج کے مکمل انخلا کے بعد افغان استحکام اور امن کے لیے مل بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں۔