طالبان 90 دن میں کابل پر قبضہ کر لیں گے، اپنے انخلاء کے فیصلے پر افسوس نہیں ہے، امریکہ
امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے مطابق افغانستان کی صورتحال بتا رہی ہے کہ وہ قوت کے ساتھ فتح یاب ہونے جا رہے ہیں کیونکہ انہوں نے افغان حکومت کے خلاف اپنی جارحانہ سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ طالبان 90 دنوں میں کابل پر قبضہ حاصل کر سکتے ہیں۔
یہ اعلان اس وقت سامنے آیا ہے جب افغانستان کے تنازع کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے قطر میں بین الافغان مذاکرات میں شرکت کی ہے تاکہ "افغانستان میں تیزی سے بگڑتی صورتحال کے لیے مشترکہ بین الاقوامی ردعمل وضع کرنے میں مدد ملے”۔
روس، چین، برطانیہ، یورپی یونین، پاکستان، ازبکستان اور اقوام متحدہ سمیت دیگر فریق مذاکرات میں حصہ لے رہے ہیں جس کا مقصد افغانستان کے تنازعے کے سیاسی حل کے لیے مذاکرات پر بین الاقوامی اتفاق رائے پیدا کرنا ہے۔
اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ایک نیوز کانفرنس کے دوران صحافیوں کو بتایا، "کم از کم، تمام حالیہ اشارے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ طالبان جنگ کے میدان میں فتح حاصل میں کامیاب ہو رہے ہیں۔”
پرائس نے کہا کہ طالبان نے 2020 کے معاہدے پر اتفاق کیا تھا جس کے تحت انہوں نے امریکہ کے ساتھ انٹرا افغان مذاکرات میں حصہ لینے کے لیے "مستقل اور جامع جنگ بندی معاہدے” پر عمل کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی تاہم تشدد کی موجودہ سطح "ناقابل قبول ہے”۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی دارالحکومتوں پر حملہ اور شہریوں کو نشانہ بنانا معاہدے کی روح سے متصادم ہے۔
پورے افغانستان میں پُرتشدد کاروائیاں بڑھ گئیں ہیں کیونکہ امریکی زیرقیادت غیر ملکی افواج نے 20 سالہ جنگ کے بعد ملک سے انخلاء تقریباً مکمل کر لیا ہے۔
طالبان نے اپنی پہلی لہر میں ملک کے تمام چھوٹے شہروں پر قبضہ کیا اور ملک بھر میں آپریشن ملک ہونے کے بعد صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ 6 دنوں میں تقریباً 10 صوبائی مقامات طالبان کے ہاتھوں میں آ چکے ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے منگل کو کہا کہ انہیں افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کے اپنے فیصلے پر افسوس نہیں ہے۔
بائیڈن نے واضع کیا کہ عسکری انخلاء بارے ان کے منصوبے تبدیل نہیں ہوئے، طالبان گروپ کی میدان جنگ میں کامیابیوں کے باوجود انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے رہنماؤں کو "اپنے لیے لڑنا، اپنی قوم کے لیے لڑنا” کے لیے اکٹھے ہونا چاہیے۔