ایس-400 معاملہ: ترکی پر پابندیوں کا خطرہ بہت زیادہ ہے، امریکا

0 443

ایک امریکی عہدیدار نے دعویٰ کیا ہے کہ روسی ساختہ ایس-400 کے تجربات کے بعد ترکی کے خلاف پابندیوں کا خطرہ بہت زیادہ ہو گیا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ میں ہتھیاروں کی فروخت کے شعبے کے اہم عہدیدار کلارک کوپر نے کہا ہے کہ یہ خطرہ حقیقی ہے کیونکہ ترکی بدستور ایس-400 پر کام کر رہا ہے۔ اور اب اس کے تجربات کے ساتھ تو پابندیوں کا معاملہ حقیقت کا روپ دھار سکتا ہے۔”

نیٹو اتحادیوں ترکی اور امریکا کے مابین تعلق پچھلے سال انقرہ کی جانب سے روسی ساختہ جدید ایئر ڈیفنس سسٹم ایس-400 خریدنے کے بعد سے کشیدہ ہیں، جس کی وجہ سے واشنگٹن نے ترکی کو اپنے ایف-35 جیٹ پروگرام سے بھی خارج کر دیا۔

امریکا کا کہنا ہے کہ روس اس ایئر ڈیفنس سسٹم کو لاک ہیڈ مارٹن ایف-35 طیاروں کی خفیہ معلومات جاننے کے لیے استعمال کر سکتا ہے اور یہ نیٹو سسٹمز سے مطابقت بھی نہیں رکھتا۔ جبکہ ترکی کا اصرار ہے کہ ایس-400 نیٹو سسٹمز میں شامل نہیں کیا جائے گا اور اس سے اتحاد کو کوئی خطرہ درپیش نہیں۔

کوپر کا کہنا ہے کہ "امریکا نے ترکی کے لیے سرخ لکیر کھینچ دی تھی کہ ایس-400 کو متحرک نہیں کرنا۔ اس کے باوجود انہوں نے اس کا تجربہ کیا۔ ہم بلاشبہ کام کر رہے ہیں کہ ترکی مغرب کے ساتھ رہے۔ یہ معاملہ بہت اہمیت کا حامل ہے محض امریکا کے لیے نہیں بلکہ پورے اتحاد کے لیے۔”

ترک صدر رجب طیب ایردوان نے اتوار کو کہا تھا کہ "چند امریکیوں نے میرے بھائی الہام علیف (آذربائیجان کے صدر) سے رابطہ کرکے انہیں کہا تھا کہ اگر ترکی آذربائیجان کے ساتھ کھڑا ہوا تو وہ ترکی پر پابندیاں لگا دیں گے۔” یہ تبصرہ نگورنو-قاراباخ کے معاملے پر آذربائیجان کی حمایت اور روسی ایس-400 میزائل ڈیفنس سسٹمز کے حوالے سے تھا، صدر نے کہا کہ امریکا ان دونوں وجوہات کو ترکی پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے بہانے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔

ترکی کے صوبہ ملاطیہ میں انصاف و ترقی پارٹی کے ایک مقامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے طیب ایردوان نے کہا تھاکہ "امریکی جانتے نہیں کہ ان کا پالا کس سے پڑا ہے۔ جو بھی پابندیاں ہیں، ابھی لگاؤ۔”

انہوں نے مزید کہا تھا کہ امریکا چاہتا ہے کہ روسی ایس-400 میزائل سسٹمز کو واپس بھیج دیا جائے۔ ہم کوئی قبائلی معاشرہ نہیں ہیں، ہم ایک آزاد ریاست ہیں۔”

ترکی اور امریکا کے مابین پیٹریاٹ میزائل خریدنے کے لیے ہونے والے مذاکرات متعدد وجوہات کی بناء پر ناکام ہو گئے تھے، جس میں ایس-400 سے لے کر واشنگٹن کی شرائط پر انقرہ کی عدم رضامندی بھی شامل تھی۔ ترکی کا کہنا ہے کہ وہ اسی صورت میں مانے گا جب ٹیکنالوجی کی منتقلی اور مشترکہ پیداوار کی شرائط تسلیم کی جائیں گی۔

انقرہ بارہا کہہ چکا ہے کہ امریکا کی جانب سے پیٹریاٹ میزائل فروخت کرنے سے انکار ہی دیگر ممالک کا رخ کرنے کی وجہ بنا، پھر روس نے اسے ٹیکنالوجی کی منتقلی سمیت بہتر پیشکش دی۔ ترکی نے کسی بھی تکنیکی مسئلے کی وضاحت کے لیے ایک کمیشن تشکیل دینے کی تجویز بھی دی۔ پچھلے سال نومبر میں دورۂ واشنگٹن میں صدر ایردوان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی کہ جہاں دونوں نے ایک ورکنگ گروپ پر اتفاق کیا تھا۔

تبصرے
Loading...
%d bloggers like this: