صدر ایردوان سے ملنا چاہتے ہیں، افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا ترک صحافی کو انٹرویو

0 14,809

دنیا بھر کا میڈیا ایک بار پھر افغان طالبان کو اپنی شہہ سرخیوں کا حصہ بنا رہا ہے۔ مئی میں امریکہ کے افغانستان سے انخلاء کے بعد، افغان طالبان، افغان خطے پر بڑی تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ طالبان ذرائع یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ انہوں نے 85 فیصد افغانستان اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔ کچھ صوبائی مرکزی مقامات کے علاوہ جن میں افغان دارالحکومت کابل اور کندھار بھی شامل ہے، تمام شہر اور دیہی علاقے کسی پکے ہوئے پھل کی طرح طالبان کی جھولی میں گر گئے ہیں۔ طالبان اس انتظار میں ہیں کہ وہ مرکزی مقامات پر کنٹرول جما کر ملک کو امن کی طرف لے جائیں۔ کیونکہ وقت کی ڈھیل کے ساتھ ممکنہ مزاحمت جنم لے کر داخلی جنگ چھیڑ سکتی ہے۔

امریکہ کے 2001ء میں افغانستان پر حملے کے بعد اب 20 سال مکمل ہو چکے ہیں۔ اس طویل وقت میں نہ تو افغانستان میں ایک مضبوط حکومت اور نہ ہی مضبوط فوج بنائی جا سکی۔ امریکہ کی قیادت میں 36 ممالک پر مشتمل اتحادی ممالک جن میں نیٹو کے ممالک بھی شامل تھے اور نان نیٹو اتحادی بھی شامل تھے 20 سال میں افغانستان کو ایک طاقتور فوج بنا کر دینے میں ناکام رہے ہیں۔ افغانستان کی سرزمین پر طالبان تھے یا نہیں، لیکن 150 سالوں کے اندر برطانیہ اور روس کے بعد امریکہ کو شکست ہو چکی ہے۔

ترکی بھی طویل عرصہ سے افغانستان میں موجود ہے۔ حالیہ دنوں میں میڈیا پر طالبان کی ترکی کو دی گئی وارننگ موضوع بحث ہیں۔ ہم نے اس بارے اور کچھ دیگر سوالات طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد سے پوچھے۔

ہمارا پہلا سوال یہ تھا کہ آپ نے کیوں ترکی کو ایسی وارننگ دی ہیں؟

ذبیح اللہ مجاہد نے یوں جواب دیا: "نہ تو امارات اسلامیہ اور نہ ہی افغان عوام، ترکی یا ترک عوام کے مخالف ہیں۔ ترک ملت کے ساتھ ہمارے دینی، مذہبی، تاریخی اور ثقافتی یکجہتی موجود ہے۔ دونوں اقوام ایک دوسرے سے پیار کرتیں ہیں۔ ہم ترکی سے صرف یہ چاہتے ہیں کہ وہ بیس سال قبل نیٹو کی چھتری تلے افغانستان آیا تھا، اب نیٹو کے ساتھ انخلاء کر دے۔ جب بھی ہمیں ترکی کی ضرورت پڑے گی، ہم ترکی اور ترک قوم سے براہ راست بات کریں گے۔ ترکی کو ہم بطور ترکی دیکھنا چاہتے ہیں۔ نیٹو کے ایک حصے کے طور پر ترکی کو نہیں دیکھنا چاہتے۔ دوحہ معاہدہ کے مطابق جو ہم نے امریکہ کے ساتھ کیا ہے اور جسے ترکی نے سراہا ہے۔ اسے تمام نیٹو اور نان نیٹو عسکری قوتوں کو قبول کرتے ہوئے افغانستان سے انخلاء کرنا چاہیے”۔

ہم نے جب پوچھا، "کیا ترکی کے ساتھ آپ کوئی معاہدہ نہیں کر سکتے؟” انہوں نے اس کا جواب کچھ یوں دیا۔

"ہم گذشتہ کئی ماہ سے ترک حکام کے ساتھ رابطے میں تھے اور انہوں نے ہمیں یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ ہماری منظوری  کے بغیر کوئی بھی فیصلہ یکطرفہ طور پر نہیں کریں گے اور اس معاملے پر ہم نے ان کے ساتھ کئی اجلاس کیے۔ تاہم، انہوں نے بعد میں فیصلہ کیا وہ کابل کے حامدکرزئی ائیرپورٹ کی سیکیورٹی سنبھالیں گے۔ یہ فیصلہ ہمارے رائے لیے بغیر یکطرفہ طور پر کیا گیا ہے۔ جب امریکہ اور تمام مغربی قوتیں افغانستان سے انخلاء کر رہی ہیں، ترکی کے امریکہ کے ساتھ معاہدہ کر کے یہاں رہنے کو ہم قبول نہیں نہیں کرتے ہیں اور ترکی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس فیصلے سے دستبرار ہو جائے۔ کیونکہ ترکی کے اس فیصلے سے نہ ترکی کا فائدہ ہے اور نہ افغانستان کا فائدہ ہے۔ اس کے برعکس دو مسلمان ممالک کے درمیان مسائل جنم لیں گے۔ یہ مرحلہ گزرنے کے بعد، ہم نے ترک حکام سے توضیع کی تھی کہ ہم افغانستان اور ترکی کے مفادات کے تناظر میں بطور دو ممالک ہر قسم کے مذاکرات کرنے کے لیے حاضر ہوں گے”۔

"آپ نے کئی ممالک کے دورے کیے لیکن ترکی کا دورہ کرنے سے کیوں انکار کر دیا؟” اس سوال کا جواب دیتے ہیں طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا:

"ہم نے گذشتہ کئی ماہ ترک حکام سے بات چیت کی۔ ہم نے مشترکہ مذاکرات پر بھی اتفاق کیا۔ تاہم ترک فریق نے اسی یکطرفہ طور پر روک دیا۔ مزید یہ کہ ترک فریق ہم سے شامی اپوزیشن کے گروپس کی طرح رویہ رکھ رہا ہے۔ کئی مغربی اور پڑوس ممالک کی طرف سے ہمیں ریاستی پروٹوکول دیا گیا۔ تاہم بدقسمتی سے ہمیں ترکی کے اس معاملے میں رویے سے تکلیف ہوئی۔ ہم کم سے کم لیبیا کی طرابلس حکومت کے ساتھ (جیسے ترکی کے) تعلقات ہیں ویسے تعلقات قائم کر سکتے ہیں”۔

انہوں نے تھوڑا سا وقفہ دیتے ہوئے ان الفاظ کا اضافہ کیا، "ہم ترک صدر رجب طیب ایردوان سے ملنا چاہتے ہیں۔ ایردوان نہ صرف ہمارے لیے بلکہ تمام عالم اسلام کے لیے بہت اہم سربراہ مملکت ہیں۔ ہم افغانستان کے حقائق ان تک براہ راست پہنچانا چاہتے ہیں”۔

روس، ایران اور ہندوستان جیسے کئی ممالک میں وفود بھیجنے سے متعلق پوچھنے پر انہوں نے یہ وجہ بیان کی۔

"امارات اسلامیہ افغانستان اپنے پڑوس ممالک کے ساتھ دفاعی اور مستقبل کے لیے بات چیت کر رہی ہے۔ ہم روس، ایران، ہندوستان، چین، پاکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے ساتھ افغانستان کے مستقبل کے لیے بات چیت کر رہے ہیں۔ یہ ممالک کابل کے شمالی اتحاد کی قوتوں کہ مدد کر کے ملک میں داخلی جنگ کا راستہ کھول سکتے ہیں، ہم خطے کو درپیش خطرات کے حوالے سے ان سے بات چیت کر رہے ہیں۔ مذاکرات اس نقطہ پر ہو رہے ہیں وہ ہمارے داخلی معاملات میں دخل اندازی نہ کریں، ہم ان کے داخلی معاملات پر دخل اندازی نہیں کرتے ہیں”۔

"کیا آپ کابل میں موجود حکومت سے بات چیت کریں گے یا نہیں؟” اس سوال کے جواب میں ذبیح اللہ مجاہد نے کہا:

"کابل انتظامیہ جن حملہ آوروں کے ساتھ آئے تھے ان کے ساتھ چلے جائیں گے۔ ہم کسی کے ساتھ اقتدار تقسیم نہیں کریں گے۔ کابل انتظامیہ مکمل طور پر بدعنوان انتظامیہ ہے۔ امریکہ اور مغربی ریاستوں کی جانب سے دئیے گئے لاکھوں ڈالرز اس ملک اور عوام پر خرچ کیے بغیر ختم کر دئیے گئے۔ یہ ناپاک انتظامیہ اپنی رقوم مغربی ممالک کے بنکوں میں رکھتی ہیں کیوں کہ یہ جس ملک پر حکومت کر رہے ہیں اس پر اعتماد نہیں رکھتے ہیں۔ دبئی، لندن اور لاس ویگاس میں عیاشی کرنے کے لیے لاکھوں ڈالر خرچ کرتے ہیں”۔

آخر پر ہم نے انہیں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والا ڈاکومنٹ دیکھایا جس میں طالبان کی طرف سے نوجوان لڑکیوں کو مجاہدین کے نکاح میں دینے کی بات کی گئی تھی۔ اس کی حقیقت پوچھی تو ذبیح اللہ مجاہد نے جواب دیا:

"ہمارے سرکاری بیانات کے علاوہ کسی بیان کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس ڈاکومنٹ کے اندر جو کچھ لکھا گیا ہے اس سے واضع ہے کہ یہ ڈاکومنٹ فیک ہے۔ بدقسمتی نے ہمیں بدنام کرنے کے لیے ایسے طریقے تسلسل سے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ ہم اس طرح کے تمام بیانات کو مسترد کرتے ہیں”۔

طالبان انتظامیہ سے کئی دیگر موضوعات پر بھی گفتگو ہوئی جنہیں میں وقتاً فوقتاً لکھتا رہوں گا۔ ان کے موقف میں کتنی سچائی ہے یہ جاننے کے ماضی بھی موجود ہے اور مستقبل بھی بہت کچھ بتائے گا۔ تاہم افغانستان نہ صرف ہمارے ملک ترکی کے لیے بلکہ ساری دنیا کے لیے تاریخی طور پر بہت اہم ہے اور اہم رہے گا۔ آخر پر میں برصغیر کے معروف شاعر محمد اقبالؒ کے یہ جملے دوہراؤں گا۔ "افغانستان ایشیا کا دل ہے۔ اگر افغانستان ٹھیک رہا تو پورا ایشیا ٹھیک رہے گا، اگر افغانستان بیمار پڑ گیا تو پورا ایشیا بیمار ہو جائے گا”۔

آر ٹی ای اردو نے اپنے قارئین کے لیے ترکی زبان سے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ ترکی زبان میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
تبصرے
Loading...
%d bloggers like this: