جب مغرب ترک اپوزیشن کی مدد کرتا ہے تو ایردوان کی سیاست مضبوط ہوتی ہے [تجزیہ]

0 2,190

ترک اپوزیشن کی سب سے طاقتور جماعت سیکولر جمہوریت خلق پارٹی (CHP) جو گذشتہ 19 سال میں ہمیشہ صدر ایردوان اور ان کی آق پارٹی سے پے در پے شکست کھاتی چلی آ رہی ہے، 2023ء سے قبل اسے ایک نیا زخم لگا ہے۔ پارٹی کی اہم شخصیت اور سابق صدارتی امیدوار مِحرم اینجے، اپنی نئی پارٹی کی تشکیل کے لیے استعفیٰ دے دیا ہے۔

اس سے قبل پارٹی کے تین پارلیمنٹرینز نے بھی اس وجہ سے استعفیٰ دے دیا تھا کہ وہ اینجے کی نئی پارٹی میں شامل ہونا چاہتے تھے۔ تاہم ان تین ممبران کے نام سامنے نہیں آ سکے۔ سیاسی گرو دعویٰ کر رہے ہیں کہ اپوزیشن پارٹی سے آنے والے دنوں میں مزید استعفےٰ سامنے آ سکتے ہیں۔

تاہم اس نمبر گیم سے زیادہ جو اہم بات ہے وہ اینجے کی پارٹی اور اس کے اتحاد پر ساختی تنقید ہے۔ اپوزیشن کی طرف سے 2023ء کے انتخابات کے لئے ملک کے اندر اور بیرون ملک اتحادیوں کی تلاش عوام میں اضطراب پیدا کرتی ہے۔

وہ جملے جو اینجے نے اس ہفتہ کے آغاز میں مستعفیٰ ہوتے ہوئے اپنی تقریر میں کہے اور جس نے میڈیا کی بھی بہت زیادہ توجہ حاصل کی، وہ ترک ووٹرز کے حزب اختلاف کے بارے میں خیالات کا مظہر ہیں: "میں فیتو (فتح اللہ گولن دہشتگرد گروپ) کا تحفظ کرنے والوں سے الگ ہو رہا ہوں۔ میں ان لوگوں سے اپنا راستہ الگ کر رہا ہوں جو کہتے ہین کہ ‘بدقسمتی ہے کہ ترکی نے آزربائیجان کی حمایت کی’۔ میں ان لوگوں سے راہیں جدا کر رہا ہوں جو امریکہ سے جمہوریت کی بھیک مانگتے ہیں۔ میں ان لوگوں کے مقاصد سے الگ ہو رہا ہوں جو کہتے ہیں ‘ہم لیبیا میں کیا کر رہے ہیں؟’۔”

اینجے کی یہ تنقید آنے والے دنوں میں اپوزیشن کی مرکزی پارٹی میں ہونے والی ممکنہ تبدیلیوں کے عمل پر اثرات ڈالنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ تاہم اس میں یورپی یونین کے چند ممالک اور ریاست متحدہ ہائے امریکہ کے لیے اسباق موجود ہیں جو صدر ایردوان کے زوال کی کوششوں میں ترکی کے اندرونی سیاسی منظرنامہ میں حصہ دار بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ اس صورتحال سے سبق حاصل کریں۔

قطع نظرکہ وہ کس پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ ترک ووٹرز بیرونی حمایت اور مداخلتوں سے نفرت کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر، امریکی صدر جو بائیڈن کے اس وعدہ نے خود اپوزیشن پارٹی کے ووٹرز کو بھی مایوس کیا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ انتخابی مہم کے دوران ترکی میں حزب اختلاف کی حمایت کریں گے اور ایردوان کو انتخابی راستے سے شکست سے دوچار کریں گے۔

مزید برآں، حال ہی میں بوآزجی یونیورسٹی کے نئے ریکٹر کی تقرری پر طلباء کے احتجاج میں جس طرح وائٹ ہاؤس اور یورپی یونین نے حمایت کی اسے ترک سماج "اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت” کے طور پر سمجھ رہا ہے۔

حیرت ہے کہ مغرب جو سالہا سال سے ترکی کی سیاست اور حکومتی تشکیل پر اثر انداز ہوتا آ رہا ہے، ابھی تک وہ ترک ووٹرز کی عمرانیات کو نہیں سمجھ پایا۔ وہ یہ سمجھنے میں ناکام ہیں کہ لاطینی امریکہ کی طرح، ترک جغرافیہ میں بھی سامراجی مخالف غصہ پایا جاتا ہے۔

ترکی میں کثیر جماعتی سیاسی نظام کے نفاذ کے بعد ترک ووٹرز کے ووٹ ڈالنے میں سب سے اولین پہلو یہ ہوتا کہ جسے وہ ووٹ ڈالنے جا رہے ہیں وہ کس حد تک ملک سے تعلق رکھتا ہے اور کس حد تک ملک سے وفادار ہے، یہی وجہ ہے کہ ترکی میں سیاست کرنے کے لیے دوہری شہریت یا بیرون ملک حمایت ناکامی کی سب سے بڑی وجہ سمجھی جاتی ہے۔

یہ بات خود سیکولر جماعت جمہوریت خلق پارٹی کے ووٹرز میں بعینہ اسی طرح موجود ہے اور اینجے کی تنقید بھی اسی دائرے میں بیرونی کھیلوں سے آزادی کی تحریک پیدا کرتی ہے۔ کیونکہ بیرونی قوتوں سے آزادی کے معاملے میں پارٹی کی صورتحال اس وقت بانی جمہوریہ ترکی اور جمہوریت خلق پارٹی کے بانی مصطفےٰ کمال اتاترک کی وفات کے 73 سال بعد بالکل الٹ ہو چکی ہے۔

ترک اس حمایت سے بھی بخوبی واقف ہیں جو امریکہ اور یورپی یونین، کرد دہشتگردوں پی کے کے، وائے پی جی کو فراہم کرتے ہیں جس سے ہزاروں شہری نشانہ بن چکے ہیں۔ حتی کہ فتیو (فتح اللہ گولن دہشتگرد تنظیم) کو بھی غلطی سے ترک اپوزیشن میں شمار کیا جاتا ہے جس پر ترکوں میں غصہ پایا جاتا ہے۔

اس لیے یہ بھول ہے کہ مغرب ترکی کی اپوزیشن پارٹیوں کو خصوصاً سیکولر جمہوریت خلق پارٹی کو جتنی بڑی حمایت فراہم کر دے، وہ ایک مضبوط اور توانا ویژن رکھنے والے صدر رجب طیب ایردوان کی سیاست اور کامیابیوں پر اثر انداز ہو سکے گی۔

جب بھی اس بارے بات کریں گے اس سے رجب طیب ایردوان مزید مضبوط ہو جائیں گے، الا یہ کہ وہ ترک اپوزیشن کی حمایت، ترک عوام سے چھپ کر خفیہ طریقے سے کریں اور وہ خفیہ ذرائع سے بیرونی اثر اندازی کو قبول کر لیں جو بہرحال ایک مشکل کام ہے۔

تبصرے
Loading...
%d bloggers like this: