ترکی کی بوآزیچی یونیورسٹی میں کیا ہو رہا ہے؟ [برہان الدین دُران]
میں نے اپنی بیچلر کی ڈگری بوآزیچی یونیورسٹی سے حاصل کی۔ میں آپ کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کی نئے ریکٹر کی تقرری پر دئیے جانے والا ردعمل بالکل مختلف صورتحال اختیار کر سکتا ہے، اب بحث یہ نہیں رہی کہ یونیورسٹی کے نئے ریکٹر کا تعلق یونیورسٹی اسٹاف سے نہیں ہے۔ یہ بحث اب بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ امریکہ اور یورپی یونین نے حالیہ پیش رفت پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ترک حکام نے اس پر باقاعدہ ردعمل بھی دیا ہے جس سے اب یہ معاملہ نئے ریکٹر کی تقرری پر اختلاف سے زیادہ ایک کثیر پہلو مسئلہ بن چکا ہے۔
اس کا پہلا پہلو ترکش یونیورسٹیوں کی مینجمنٹ سے متعلق ہے۔ ترک صدر رجب طیب ایردوان جو ترکی کی باقی یونیورسٹیوں میں بھی ریکٹر کی تقرری کا اختیار رکھتے ہیں، ان کی جانب سے بوآزیچی یونیورسٹی کے ریکٹر کی نئی تقرری بھی عین قانون کے مطابق ہے۔ بوآزیچی یونیورسٹی کا ایک طبقہ اس تقرری پر اعتراض کرتا ہے کہ اس میں روایات کو نہیں نبھایا گیا، اس لیے وہ اپنا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے اس پر احتجاج کرتے ہیں۔
ہم اس سے ریکٹر کا یونیورسٹی انتخابات کے ساتھ تقرر کس طرح تعلیمی شعبہ کو سیاسی اور فرقہ وارانہ رنگ میں ڈال دیتا ہے۔ اُس سے بچنے کے لیے ریکٹروں کی تقرری کا یہ نیا طریقہ جہاں سرکاری یونیورسٹیوں میں ریکٹروں کے انتظامی کردار کو اجاگر کرتا ہے وہیں اعلیٰ تعلیمی اداروں کی خودمختاری کو ایگزیکٹو بورڈز، سینیٹ، ڈین، ڈیپارٹمنٹس اور تحقیقی شعبوں کے ذریعے محفوظ رکھتا ہے۔
یونیورسٹیوں میں ریکٹرز کی تقرری کے اس نئے طریقہ پر مسائل کو نئی تجاویز اور تنقید کے تبادلے کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔ بجائے اس کے ہم اس معاملے کے دوسرے پہلو کو اجاگر کریں کہ یہ بحث صرف بوآزیچی یونیورسٹی کی ہے۔
نئے ریکٹر کی تقرری کو جس طرح چند اساتذہ اور طلباء کے ایک گروہ نے ناممکن بنا دیا ہے، وہ بوآزیچی یونیورسٹی میں ایک مافیا کی موجودگی کا پتا دیتا ہے۔ اس سے بوآزیچی یونیورسٹی کی تعلیمی ایکسیلینس اور شہرت پر سوال اٹھتا ہے۔ پھر جس طرح ایک شدت پسند گروہ نے اس احتجاج کو ہائی جیک کر لیا، اس سے یہ عوامی موضوع بن گیا۔ یونیورسٹی باغیوں کے ایک قلعے کی طرح دکھائی دینے لگی اور امریکہ، یورپ چیخ اٹھے۔
جتنی منہ اتنی باتیں کسی نے کہا ایک آزاد یونیورسٹی پر پریشر ڈالا جا رہا ہے اور کسی نے کہا بوآزیچی یونیورسٹی بھی ترکی کی باقی یونیورسٹیوں کی طرح ایک عام یونیورسٹی ہی ہے۔
اس کا تیسرا اہم پہلو احتجاج کرنے والے طبقہ کی جانب سے اسلام کے سب سے زیادہ مقدس مقام خانہ کعبہ شریف کی گستاخی کرنا تھا، اور اس پر ردعمل کا اظہار کرنے والے یونیورسٹی طلباء کو تحقیر کا نشانہ بنانا تھا۔ پولیس نے اس پر کاروائی کی اور کئی گستاخان کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان گرفتاریوں پر ترکی کی اپوزیشن پارٹیوں نے تنقید کی اور عملی طور پر احتجاج میں شامل ہوتے ہوئے ریکٹر کے آفس پر دھاوا بول دیا گیا۔
صدر ایردوان کی مخالفین نے بھرپور کوشش کی کہ کسی طرح اس معاملے کو قومی تحریک میں بدل دیا جائے اور احتجاج کی یہ لہر ملک بھر میں پھیل جائے۔
اس معاملے کا چوتھا پہلو عالمی برادری خصوصاً امریکہ اور یورپ کی طرف سے آنے والا ردعمل ہے جس میں ترکی کی جمہوریت پر سوال اٹھائے گئے اور تنقید کی گئی۔
سوال یہ ہے یونورسٹی طلباء کا احتجاج ان کا قانونی حق ہے لیکن سیاسی اور شدت پسند گروہوں کی جانب سے ایسے احتجاج کو ہائی جیک کر لینا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے قبل ماضی قریب میں فرانس، امریکہ اور جرمنی میں بھی عوامی ردعمل کو شدت پسند گروہ ہائی جیک کر چکے ہیں۔ پیرس میں "یلوویسٹ” احتجاج پر پولیس کریک ڈاؤن اور واشنگٹن میں امریکی کیپیٹل بلڈنگ پر حملے کی یادیں تو ابھی تازہ ہیں جنہیں بغاوت کی کوشش اور دہشت گردی کی کارروائی قرار دیا گیا تھا۔
دوسرے لفظوں میں کوئی بھی ملک مظاہروں کو شدت پسندوں، مقامی اور عالمی عناصر کے ہاتھوں یرغمال ہونے کی عمل سے اجنبی نہیں ہے جس کے ذریعے مختلف نظریات اور موقف پھیلائے جاتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ، بوآزیچی یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبہ کو شدت پسندی کو مسترد کرنے والوں کی صف اول میں ہونا چاہئے، وہ شدت پسندی جو اعلی تعلیم اور تعلیمی اداروں کو نقصان پہنچانے کا خطرہ بنے۔ مغربی حکومتیں، جو جمہوریت پر ترکی کو درس دینے کی کوشش کرتی ہیں، انہیں واپس مڑ ماضی قریب میں اپنے ملک میں پیدا ہونے والے تجربات کا جائزہ لینا چاہیے اور اپنے موقف کو سنجیدہ بنانے کی کوشش کرنا چاہیے۔